کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 40
اِس سورت میں اللہ تعالی نے بار بار تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اپنی بیویوں پر ظلم کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اگرانھیں اپنے عقد میں رکھنا ہو تو بھلے طریقے سے اور بسانے کی نیت سے رکھنا چاہئے اور اگر انھیں چھوڑنا ہو تو اچھے طریقے سے اور فیاضی کے ساتھ کچھ دے کر انھیں چھوڑنا چاہئے ۔ بعض لوگ مذاق مذاق میں ہی طلاق دے دیتے ہیں ۔ حالانکہ طلاق ایسا معاملہ ہے کہ جس میں مذاق کا حکم بھی سنجیدہ بات کے حکم جیسا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ : اَلنِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَۃُ ) [ ابو داؤد : ۲۱۹۶ ۔ قال الألبانی : حسن] ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں حقیقت بھی حقیقت ہے اور ان میں مذاق بھی ایسے ہی ہے جیسے حقیقت ہو اور وہیں : نکاح ، طلاق اور رجوع ۔ ‘‘ لہذا جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو اسے اس کے عواقب اور نتائج پر اچھی طرح غور کرلینا چاہئے ۔ سوچ وفکر اور اصحاب الرائے سے مشورہ لینے کے بعد ہی وہ اِس طرح کے اقدام پر آمادہ ہو ۔ ورنہ بعد میں پچھتاوے اور ندامت کا سامنا بھی کر سکتا ہے ۔ 2. طلاق مرد کے ہاتھ میں ہے طلاق اللہ تعالی نے خاوند کے ہاتھ میں رکھی ہے ۔ یعنی اس کا اختیار صرف مرد کو ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ بیوی اپنے خاوند کو طلاق نہیں دے سکتی ۔ ہاں وہ خلع کی صورت میں اس سے طلاق لے سکتی ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔ شاید اِس میں حکمت یہ ہے کہ عموما مرد ہی بیوی کے حصول کیلئے مال خرچ کرتا ہے ، پھر وہی