کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 39
1. طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے جی ہاں ، طلاق دینا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ! اس کی وجہ سے دو خاندانوں میں بغض ، نفرت، قطع رحمی اور دوری پیدا ہوتی ہے ۔ وہ گھرانہ اجڑ جاتا ہے جس میں طلاق دی جاتی ہے ۔ لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آکر ( طلاق ، طلاق ، طلاق ) کہہ کر دو خاندانوں میں فساد بپا کردیتے ہیں۔ اور کئی لوگ تو اپنی بیویوں کو کھلونہ سمجھ کر نہایت آسانی سے طلاق کا پروانہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں حالانکہ طلاق میں اصل چیزمنع ہے ۔ یعنی جب تک اس کا کوئی معقول سبب نہ ہو جس کا ازالہ کرنا نا ممکن ہو اور صلح کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو انتہائی مجبوری کی حالت میں طلاق دے سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔ ’طلاق ‘ کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک پوری سورت نازل کی ہے اور اس میں ’طلاق ‘ کو اُس نے اپنی حدوں میں سے ایک حد قرار دیا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی فرمایا ہے ﴿وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ﴾ ’’ جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا ۔ ‘‘ لہذا ’طلاق ‘ کو عورت پر لٹکتی ہوئی تلوار اور ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ مردہر وقت اپنی بیوی کو اس سے ڈراتا اور دھمکاتا رہے بلکہ جب اور کوئی حل باقی نہ رہے اور دونوں کیلئے ازدواجی رشتے سے مزید منسلک رہنا ممکن نہ ہو توآخری حل کے طور پر طلاق کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اور جب طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں کے مطابق ہی دینی چاہئے۔ ان حدوں کو پھلانگنا بہت بڑا ظلم ہے ۔