کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 38
لہذا جب مرد کے سامنے سوائے طلاق دینے کے اور کوئی حل نہ رہے تو اسے ’طلاق ‘ دے دینی چاہئے ۔ تاہم اسے اِس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنا ہو گی اور ایک متعین طریقۂ کار کے مطابق ہی طلاق دینی ہو گی ۔
یہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اسلام کا قانونِ طلاق موجودہ دور کے خود ساختہ تمام قوانین ِ طلاق پر فوقیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ اسلام کا قانونِ طلاق وحیِ الٰہی پر مبنی قانون ہے جوکہ ہر قسم کی خطا اور سہو وغیرہ سے پاک ہے ۔ یعنی اس کا ماخذ اللہ رب العزت کی ذات اقدس ہے جس کا ہر قانون ہر زمانے کیلئے سازگار ہے ۔ جبکہ خود ساختہ قوانین انسانوں کے وضع کردہ ہیں جن میں یقینی طور پر خطا ، سہو اور نسیان وغیرہ کا امکان موجود ہوتاہے ۔ انسان حیرت انگیز کمالات کے باوجود نقائص سے خالی نہیں ہے ۔اس لئے اس کا بنایا ہوا قانون قطعا عیوب ونقائص سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر وہ ایک دور کیلئے مناسب ہو گا تو دوسرے دور کیلئے غیر مناسب وغیر موزوں ہو گا ۔
اسلام کا قانونِ طلاق کیا ہے ؟ ’طلاق‘ کس طرح دینی چاہئے اور اس سلسلے میں کن کن احکامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم کرتے ہیں ۔