کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 37
اسلام کا قانون طلاق اگر زوجین کے مابین تعلقات خوشگوار نہ رہ سکیں اور اصلاحِ احوال کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اسی کشمکش ، گھریلو ناچاقی اور پریشانی میں ہی پوری زندگی گذار دیں بلکہ اللہ تعالی نے اس کا بھی حل بتایا ہے اور وہ ہے ’طلاق ‘ ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا﴾ [النساء:۱۳۰] ’’ اور اگر وہ دونوں ( میاں بیوی ) الگ ہو جائیں تو اللہ اپنی مہربانی سے ہر ایک کو بے نیاز کردے گا ۔ اور اللہ تعالی بڑی وسعت والا اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘ اِس آیت کریمہ سے پہلے اللہ تعالی نے دونوں کو صلح کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ﴿ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ﴾ ’’ صلح بہر حال بہتر ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد اللہ کا یہ فرمان کہ ’’ اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں تو اللہ تعالی ان میں سے ہر ایک کو بے نیاز کردے گا ۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب صلح کا امکان نہ رہے تو ضروری نہیں کہ وہ مجبورا ایک دوسرے سے بندھے رہیں ۔ بلکہ اگر وہ جدا ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی عورت کو اس سے بہتر خاوند اور خاوند کو اس سے بہتر بیوی نصیب کردے جس کے بعد وہ خوشگوار انداز سے ازدواجی زندگی بسر کر سکیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴾ [النساء : ۱۹ ] ’’ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘