کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 34
یہ بھی نا پسند ہونا چاہئے کہ ان کی بہو کو ان کا بیٹا طلاق دے ۔ ویسے بھی اگر والدین بلا شرعی عذر کے اپنے بیٹے کو طلاق کا حکم دیں تو بیٹے پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان کی فرمانبرداری کرے ۔ اگر ان کا حکم کسی معقول شرعی عذر پر مبنی نہیں ہے اور بیٹاان کے اس حکم پر عمل نہیں کرتا تو یہ ان کی نافرمانی نہیں ہوگی ۔ ہاں اگر اس کا کوئی شرعی سبب ہو اور بہو سمجھانے کے باوجود اپنی اصلاح نہ کر رہی ہو ، مثلا بے نماز ہو ، کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو ، اپنے ساس اور سسر کو گالی گلوچ کرتی ہو ، اپنے گھر اور اولاد کی باکل کوئی پروا نہ کرتی ہو وغیرہ ۔ اس صورت میں اس کے والدین اسے طلاق دینے کا حکم دیں تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ ان کی اطاعت کرے ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو انھوں نے اسے طلاق دینے سے انکار کردیا تھا ۔ پھر جب یہ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انھیں یہی حکم دیا کہ وہ اسے طلاق دے دیں ۔ چنانچہ انھوں نے اسے طلاق دے دی ۔ [ رواہ الترمذی ، وابو داؤد ، وابن ماجۃ وصححہ الألبانی ] قارئین کرام ! یہ تھے طلاق کے اسباب جنھیں ہم نے تفصیل سے بیان کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بھی ذکر کیا کہ ان اسباب کا حل کیا ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایسے اسباب نہ اختیار کئے جائیں جن کے نتیجے میں زوجین کے مابین تعلقات نا خوشگوار ہوں اور نوبت طلاق تک جا پہنچے۔