کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 33
اس کی بھی ماں ہے ۔ اسی طرح ساس بھی اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے اور اس سے اسی طرح سلوک کرے جس طرح وہ اپنی سگی بیٹیوں سے کرتی ہے ۔ پھر بات بات پہ اس کے خاوند کو اس کے خلاف نہ بھڑکائے بلکہ اچھے انداز سے اسے سمجھائے اور خوش اسلوبی سے گھریلو امور کی نگرانی کرے اور خواہ مخواہ اپنے بیٹے کو پریشان کرنے کا سبب نہ بنے ۔ 15. ماں باپ کی بے جا ضد ماں باپ کوبعض اوقات بہو پسند نہیں آتی یا ان کا بیٹا جب اپنی بیوی سے زیادہ محبت وپیار کا اظہار کرتا ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتے اور بیٹے سے مطالبہ شروع کردیتے ہیں کہ اسے طلاق دے دو ۔ پھر بلا وجہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ اسے طلاق دو یا ہم سے الگ ہو جاؤ ۔ بالآخر بیٹا اپنے والدین کی نافرمانی سے بچنے کیلئے بیوی کو طلاق دے ہی دیتا ہے ! حل : والدین کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی عورت کامل نہیں ہوتی ۔ ہر عورت میں نقائص ہوتے ہیں جس طرح کہ ہرمرد میں بھی عیوب ہوتے ہیں ۔ لہذا اگر ان کی بہو میں کوئی عیب ہے بھی تو اس کی اصلاح کریں نہ یہ کہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کردیں ۔ والدین کو اپنی بہو سے وہی سلوک رکھنا چاہئے جس سلوک کی وہ اپنی بیٹی کیلئے توقع کرتے ہیں ۔ اور جس طرح وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی اپنے گھر میں خاوند کی نورِ نظر ہو اسی طرح اگر ان کا بیٹا اپنی بیوی سے محبت کرتا ہو توانھیں اس پر خوش ہوناچاہئے ۔ اورجس طرح وہ اپنی بیٹی کے متعلق یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ طلاق کا پروانہ لے کر ان کے ہاں پہنچ جائے تو اسی طرح انھیں