کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 31
چاہئے ۔ اگر وہ سب ناکام ہو جائیں تو آخری حل کے طور پر طلاق دی جا سکتی ہے۔ وہ مرحلہ وار اقدامات یہ ہیں : اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ﴾ [ النساء : ۳۴ ] ’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ۔ ( اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو ۔ ( پھر بھی نہ سمجھیں ) تو انھیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں ۔ ٭ پہلا ہے اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھانا ۔ ٭ دوسرا اقدام ہے اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کرنا ۔ ٭ تیسرا ہے سزا دینا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ سزا دیناآخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں ۔ یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جِلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ )