کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 30
اِس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ ان سب کے درمیان انصاف کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی ناانصافیوں کی وجہ سے اس کی وہ بیوی تنگ آکر اس سے طلاق کا مطالبہ شروع کردے جس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو ۔ اور جہاں تک اپنی سوکن کو برداشت نہ کرنے کی بات ہے تو یہ ہرگز درست نہیں ہے ۔ عورت کو مرد کا یہ شرعی حق بخوشی قبول کرنا چاہئے ۔ اور اگر اس کا خاوند دوسری شادی کرنا چاہے تو نہ پہلی بیوی دوسری کی طلاق کا اور نہ ہی دوسری بیوی پہلی کی طلاق کا مطالبہ کرے ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( لاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَۃُ طَلاَقَ أُخْتِہَا لِتَکْتَفِیئَ صَحْفَتَہَا ، وَلْتَنْکِحْ فَإِنَّمَا لَہَا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَہَا ) [ البخاری : ۵۱۵۲ ، مسلم : ۱۴۰۸ ] ’’ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا رزق اپنے لئے حاصل کر لے بلکہ وہ (بلا شرط ) نکاح کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ اسے ضرور ملے گا ۔ ‘‘ 13. زوجین کے مابین نا چاقی کو ختم کرنے کیلئے مرحلہ وار اقدامات سے صرف نظر کرنا اگر زوجین میں ناچاقی ہو تو اسے ختم کرنے کے لئے شریعت میں مرحلہ وار اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔ عموما ان اقدامات سے تجاوز کیا جاتا ہے اور فورا طلاق کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے ۔ حل : طلاق آخری حل ہے ۔ اس سے پہلے جو مرحلہ وار اقدامات ہیں پہلے ان پر عمل کرنا