کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 26
وناجائز کاموں میں بے دریغ پیسہ بہا دیں تو گھر سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر بے برکتی کی وجہ سے پیسہ اڑتا ہی چلا جاتا ہے ۔ جس کے بعد ( ہَلْ مِن مَّزِیْد) کی طمع اور لالچ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے اخراجات کو کیسے کنٹرول کرے ۔ اور نا شکری اور عدم قناعت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ناچاقی اور منافرت کی ابتداء ہوتی ہے اور بالآخر نوبت ان کے درمیان علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے ۔ حل : اس کا حل یہ ہے کہ خاوند جو گھریلو اخراجات کا ذمہ دار اوراپنے بیوی بچوں کا کفیل ہوتا ہے اسے تمام تر اخراجات میں راہِ اعتدال کو اختیار کرنا چاہئے ۔ نہ وہ کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی اسراف اور فضول خرچی کرے ۔ بلکہ میانہ روی اور توسط سے کام لے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَامًا ﴾ [الفرقان: ۶۷] ’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے درمیان گذر اوقات کرتے ہیں ۔ ‘‘ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَن یُّضَیِّعَ مَن یَّقُوْتُ ) [ ابو داؤد : ۱۶۹۴۔ قال الألبانی : حسن ] ’’ کسی انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کی غذا وغیرہ کا وہ ذمہ دار ہو ۔ ‘‘ 9. فطری ضرورت کا پورا نہ ہونا مردو عورت دونوں کی ایک فطری ضرورت ہے ۔ اگر یہ ضرورت صحیح طور پر پوری نہ ہو تو آخر کار اس کا نتیجہ بھی طلاق ہی نکلتا ہے ۔