کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 25
اور چونکہ اِس طرح کا طرز عمل اکثر وبیشتر مردوں کی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے انھیں مخاطب کر کے ارشاد فرمایا : ﴿ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴾ [النساء : ۱۹ ] ’’اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لاَ یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً ، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ) ’’ کوئی مومن (اپنی ) مومنہ (بیوی ) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی عادت اسے نا پسند ہو گی تو کوئی عادت اسے پسند بھی تو ہوگی ۔ ‘‘ [مسلم : ۱۴۶۹ ] 8. خرچ کرنے میں بے اعتدالی بعض لوگ گھریلو اخراجات میں راہِ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ یا تو بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھراسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں ان کے اور ان کی بیویوں کے مابین تعلقات متوازن نہیں رہتے ۔ کیونکہ وہ اگر بخل اورکنجوسی کا مظاہرہ کریں اور اپنی بیویوں کی جائز ضروریات کیلئے پیسہ خرچ کرنے سے گریز کریں اور اس کی وجہ سے ان کو اپنی ہم جنس عورتوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے تو یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور آخر کار بیویاں تنگ آ کر اپنے خاوندوں سے کہہ ہی دیتی ہیں کہ اگر آپ خرچ نہیں کر سکتے تو ہمیں ہمارے والدین کے گھر بھیج دیں ۔ اور اگر وہ بے انتہاء خرچ کریں اور دوسروں پر اپنی مالی برتری ثابت کرنے کیلئے جائز