کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 20
اس کی بیوی ( اگر وہ دیندار نہ ہو تو اس کو) آزادی مل جاتی ہے ۔ پھر وہ بے پردہ ہو کر باہر گھومتی پھرتی ہے ، غیر محرم مردوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے اور مختلف غیر شرعی امور میں منہمک رہتی ہے لیکن اس کے خاوند کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا ! اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، بے جا طور پر تجسس ہوتا ہے اور ہر ہر بات پر بدگمانیاں ہوتی ہیں ۔ اور یوں فرطِ غیرت میں مبتلا ہو کر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔
حل : اگر مرد میں بالکل ہی غیرت نہ ہو تو اسے اپنی بیوی کیلئے غیرت مند ہونا چاہئے ۔ وہ اس قدر غیور ہو کہ اس کا غیر مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، بے پردہ ہو کر اس کا گھومنا پھرنا اور اجنبی مردوں سے فون پر غیر ضروری بات چیت کرنا اسے نا پسند ہو ۔ اور اگر بیوی بعض برائیوں میں مبتلا ہو تو اسے اس پر بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے تنبیہ کرنی چاہئے ۔
اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو اسے اعتدال کی حد تک لانا چاہئے کیونکہ فرطِ غیرت کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔
5. مردانگی کا بے جا اظہار اور بد سلوکی کا مظاہرہ
بعض حضرات کو چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے : ﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ ‘‘ اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو (ناقصات العقل) ’’ کم عقل ‘‘ قرار دیا ہے ، تو وہ بے جا طور پر اپنی مردانگی اور عورت پراپنی حکمرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے بد سلوکی کرتے ہیں ۔ ان کا طرزِ عمل اس قسم کا ہوتا ہے کہ ﴿ مَآ اُرِیْکُمْ اِِلَّا مَآ اَرٰی ﴾ ’’بس رائے وہی ہے جو میں دے رہا ہوں ۔ ‘‘ یعنی اپنی بیویوں سے رائے لینا گوارا ہی نہیں کرتے یا اگر ان کی رائے سامنے آ