کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 18
اور دونوں ایسی چیزوں سے پرہیز کریں جن کی بناء پر ان میں شکوک وشبہات پیدا ہوں ۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بہت زیادہ گمان کرنے اور تجسس سے منع کردیا ہے۔ اس کا فرمان ہے : ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوا﴾[الحجرات :۱۲] ’’ اے ایمان والو ! تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے ۔ اور جاسوسی نہ کیا کرو ۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوْا وَلاَ تَجَسَّسُوْا ۔۔۔۔)[ البخاری : ۶۰۶۶ ، مسلم : ۲۵۶۳] ’’ تم بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ یہ سب سے جھوٹی بات ہے ۔ اور تم چوری چھپے کسی کی بات نہ سنا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو ۔۔۔۔۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ( جس کا نام ضمضم بن قتادہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا گیا ہے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا :اے اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنم دیا ہے ۔ ( یعنی اس نے یہ کہہ کر در اصل اپنی بیوی پر شک وشبہ اور بد گمانی کا اظہار کیا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س سے پوچھا : کیا تمھارے اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کے رنگ کیاہیں ؟ اس نے کہا : سرخ رنگ کے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خاکی رنگ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے کہا : شاید اس کے خاندان میں کوئی