کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 43
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کچھ دینار تھے۔ اس نے جب اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے یہودی! تمھیں دینے کے لیے میرے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جب تک آپ مجھے نہیں دیں گے، میں آپ سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تب میں بھی تمھارے ساتھ بیٹھا رہوں گا۔‘‘ چنانچہ آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز بھی پڑھ لی۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے ڈرا دھمکا رہے تھے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رویے کو بھانپ لیا (اور پوچھا:) ’’تم اس کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ایک یہودی آپ کو روک رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے معاہد یا کسی اور پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘ جب دن چڑھا تو یہودی نے کہا: أشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں ‘‘ اور کہا کہ میری آدھی دولت اللہ کے لیے وقف ہے۔ جناب! میں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ صرف اس لیے کیا ہے کہ تورات میں مذکورآپ کے ان اوصاف کو دیکھ سکوں کہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں پیدائش ، طیبہ کی طرف ہجرت، شام میں ان کی بادشاہت ہوگی، تند خو ، ترش مزاج، بازاروں میں چکر کاٹنے والے، بد مزاج اور دھوکہ دینے والے نہیں ہوں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ میری جائیداد ہے، اللہ نے آپ کوجس حکمت ودانائی سے نوازا ہے اس کے مطابق اس میں تصرف فرمائیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس یہودی کے پاس بہت زیادہ دولت تھی۔[1]
[1] ۔ دلائل النبوۃ للإمام البیہقي: 6 280-281/ و مستدرک حاکم : 622/2، حدیث:4242 امام ذہبی مستدرک میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ منکر ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں (الضعیفۃ، رقم الحدیث: 1795)