کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 339
ملتی جلتی رہتی ہو؟‘‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا: ’’میں کبھی احساس برتری میں مبتلا نہیں ہوئی۔‘‘ محترمہ ’’و‘‘ کا موقف یہ ہے کہ اسلام ایک سیاسی پانسہ (پھانسنے کا ذریعہ) ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہندوستانی (مسلمان) انگریزوں سے اپنا مذہب قبول کروالیں تو بہت جلد وہ ہندوستان پر خود حکومت کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔ (اللہ جانے لوگ اسلام کو صرف ہندوستان تک محدود کیوں سمجھتے ہیں !) میں نے دوٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کی تو انھوں نے محمد علی[1] کے ترجمۂ قرآن کے دیباچے سے چند پیروں کے مطالعے کی بنا پر کہا: ’’اس کتاب کا بنیادی موضوع تو شہوت پرستی ہے، اگرچہ اس میں کچھ عقائد اچھے بھی ہیں مگر لفظ اسلام گھٹیا باتوں پر اچھے لیبل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایسی باتیں جن کا نام لینے سے منہ کا ذائقہ تک خراب ہوجاتا ہے۔‘‘ انھوں نے اسلام کے علماء اور مبلغین کو اس مکڑی سے تشبیہ دی جو جالا تان کر معصوم مکھیوں کا شکار کرتی ہے۔ انھوں نے کہا: ’’کثرتِ ازواج کی آڑ میں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم عصمت فروشی کی زندگی بسر کرو۔‘‘ اندھے مسیحی تعصب میں مبتلا اس خاتون کو اس کے عقائد کے خلاف کسی بات کا قائل نہیں کیا جاسکتا۔ ٭ جناب ’’ز‘‘ صاحبہ میری ایک عیسائی دوست ہیں جن کے اسلام کے بارے میں تصورات نہایت غلط ہیں ۔ ان کے ایک حالیہ خط سے چند سطریں پیش کرتی ہوں : ’’میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ تمہارا یہ اقدام نہایت غلط اور باعثِ ذلّت ہے کیونکہ مجھے تو دین اسلام میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ یہ بنیادی طور پر ایک مشرقی مذہب ہے اور میرے خیال میں مغرب کی ایک تعلیم یافتہ خاتون کے لیے اس میں کشش کا کوئی سامان موجود نہیں ۔ اس کا ہماری عیسوی تعلیمات سے کیا مقابلہ؟ Mahomet(صلی اللہ علیہ وسلم)[2] کا
[1] ۔ یہ لاہور قادیانی فرقے سے منسلک تھے اور ان کا ترجمۂ قرآن (انگریزی) خاصا مشہور ہوا۔ (م ف) [2] ۔ تُرک چونکہ حرف ’’د‘‘ (D) کو ’’ت‘‘ (T) کی طرح بولتے ہیں ، اس لیے ان کے قرب کے باعث یورپ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے یہ ہجے رائج ہوگئے۔ (م ف)