کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 337
٭ محترمہ ’’ب‘‘ اس کمیٹی کی ممبر ہیں اور نہایت باقاعدگی سے چرچ میں حاضری دیتی ہیں ۔ جب انھیں یہ خبر موصول ہوئی تو اس قدر حیران ہوئیں گویا اچانک کوئی بم پھٹ پڑا ہو۔ انھوں نے خوف اور دہشت سے اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے مجھ سے پوچھا: کیا آپ کو یہ علم ہے کہ آپ کیا کررہی ہیں ؟ کیا آپ پاگل ہوگئی ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ اسلام تو صرف رنگ دار لوگوں کے لیے انسانوں کا بنایا ہوا مذہب ہے۔ ٭ محترمہ ’’ج‘‘ بھی کمیٹی کی ایک رکن ہیں جو کئی سال بنگال میں رہ چکی ہیں ۔ وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ بنگال کے جس ضلع میں وہ رہی ہیں وہاں مسلمانوں کو اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ بے حد دیانت دار ہونے کے باوجود بے تحاشا جھوٹ بولتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : ’’تمام طبقوں میں بیویوں سے منقولہ املاک جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مرد اپنی ماں اور بہنوں وغیرہ کا احترام تو کرتے ہیں مگر بیویوں سے جو دل چاہے سلوک کرتے ہیں کیونکہ ان کا قرآن انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔‘‘ میں نے قرآن کریم کھول کر اس میں بیویوں کے حقوق اور ذمے داریوں کے بارے میں عبارات پڑھیں تو اس خاتون کا جھوٹ صاف ظاہر ہوگیا۔ ٭ مسٹر ’’د‘‘ کمیٹی کے ممبر ہیں جو بہت پڑھے لکھے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہیں اور ایک مشہور پبلک ہائی سکول میں کام کرتے رہے ہیں ۔ جب ان کی رائے دریافت کی گئی تو انھوں نے کہا: ’’بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (مسلمان) لامحدود جنسی تلذذ کے لیے جنت کی خواہش رکھتے ہیں ۔‘‘ کیا اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات بھی کوئی ہوسکتی ہے کیونکہ جسم کی موت کے ساتھ ہی اس کی ضروریات اور خواہشات بھی تو ختم ہوجاتی ہیں ؟ ٭ مسٹر’’ہ‘‘ وہ پادری ہیں جنھیں مجھے ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کے لیے بلایا گیا۔ انھوں نے فرمایا: ’’کیا تمھیں یہ احساس نہیں کہ تم نے کتنا خوفناک قدم اٹھایا ہے؟ تمہارے اس قدم پر تو اس ادارے کی بانی خاتون کی روح بھی قبر میں تڑپ اٹھی ہوگی۔ کیا تمھیں احساس ہے کہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہورہی ہو؟ ‘‘