کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 336
٭ محترمہ ’’الف‘‘ ہومز کمیٹی (Homes Committee) کی سیکرٹری ہیں ۔ جب اس کمیٹی کو میرے نظریات کی تبدیلی کا علم ہوا تو ’’محترمہ الف‘‘ سے مجھے مندرجہ ذیل خط موصول ہوا: محترمہ گرفتھس! ’’آج ہاؤس کمیٹی کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ آپ اسلام قبول کرکے ووکنگ (Woking) کی مسجد میں عبادات اور تقریبات میں شرکت کرتی ہیں ، اس پر کمیٹی نے بہت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات ہومز کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں بھی زیرِبحث آئے گی، لہٰذا ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ واقعتاً اسلام سے وابستگی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ؟ اور میں یہ بات واضح کردوں کہ کمیٹی کی نظر میں آپ کا یہ اقدام ملازمت سے برطرفی کا مستوجب متصور ہوگا کیونکہ ہم کسی مسلمان کو یا مسجد میں حاضری دینے والے فرد کو اپنی ملازمت میں نہیں رکھ سکتے۔ مزید میں صرف یہ کہوں گی کہ مجھے سن کر بہت دکھ ہوا کہ آپ عیسائیت کو ترک کرنے پر غور کررہی ہیں اور میں آپ سے یہ گزارش کرتی ہوں کہ یہ ناقابل تلافی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلیں ۔‘‘ آپ کی مخلص ڈی سی ٹی ایچ میں نے جواب میں لکھا کہ میں یہ ’’ناقابل تلافی‘‘ قدم اٹھا چکی ہوں ، مگر میں نے مذہب کو ہمیشہ انسان کا ذاتی معاملہ ہی سمجھا ہے، لہٰذا میرے تبدیل شدہ عقائد سے میرا روزگار متاثر نہیں ہوگا اور جن بچوں کی بہبود کے لیے میں کام کررہی ہوں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میرے خط کے جواب میں جو خط آیا، افسوس کہ میں نے وہ جلادیا۔ اس میں اس ’’محترمہ‘‘ نے لکھا تھا: ’’بظاہر مذہب کو ذاتی معاملہ کہتے ہوئے آپ کو اپنے دائرہ کار کا ہرگز احساس نہیں ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے آپ بچوں کی عیسائیت کی طرز پر کیسے تربیت کرسکیں گی۔ ‘‘