کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 334
سیاسی رہنما اور علماء انھی گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں جن پر قرآن حکیم میں یہودیوں کی شدیدمذمت کی گئی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اگر ہم نے خلوصِ دل سے توبہ اور اپنی اصلاح نہ کی تو ہمارا انجام بھی یہودیوں جیسا ہوگا، میں نے یہ عہد کیا کہ اس اندرونی خطرے کے خلاف بھرپور قلمی جہاد کروں گی۔ اس سلسلے میں جنوری 1961؁ء میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے نام اپنے پہلے خط میں لکھا: ’’جب میں آپ کے لکھے ہوئے مضامین کا مطالعہ کررہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے ہی خیالات پڑھ رہا ہوں ۔ جب آپ اردو سیکھ کر میری کتابیں پڑھیں گی تو مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی یہی محسوس ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے درمیان پہلے سے اگرچہ کوئی واقفیت موجود نہیں ، پھر بھی یہ باہمی ہمدردی، موافقت اور اتفاقِ رائے اس وجہ سے ہے کہ ہم دونوں کو غور وفکر کی تحریک ایک ہی سرچشمہ یعنی اسلام سے ملی ہے۔‘‘ [1] [بیگم مریم جمیلہ سابقہ مارگریٹ مارکس ، نیویارک، حال مقیم لاہور] (Maryam Jameelah Begum, Formerly Margaret Marcus) میں مسلمان کیوں ہوں ؟ آج سے چند ماہ قبل تک مجھے عیسائی شمار کیا جاتا تھا کیونکہ میں تقریباً 26برس پہلے ایک عیسائی گھرانے میں پیداہوئی اور بچپن میں مجھے اچھی زندگی کے جو اصول سکھائے گئے تھے ان پر عمل کرتی رہی۔ سنِ بلوغت کو پہنچنے کے بعد قسمت نے مجھ سے کچھ زیادہ اچھا سلوک نہ کیا، لہٰذا مجھے کسی ایسی روشن اور قابل یقین چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو عیسائیت میں موجود نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں در در بھٹکنے لگی۔ میں چرچ صرف اس لیے جاتی تھی کہ میں وہاں برسرِ روزگار تھی، مگر روحانی طور پر سکون واطمینان سے محروم ہی رہی۔ چند سال قبل 1926-27ء میں ، میں مصر گئی تو محض سیر وتفریح کے شوق میں قاہرہ کی ’’مسجد محمدعلی‘‘
[1] ۔ اسلام اینڈ ماڈرن ازم، از مریم جمیلہ- لاہور، 1968ء،ص:12-7