کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 333
الجزائری علماء کے رہنما مرحوم شیخ ابراہیمی، جامعۃ الازہر کے ڈاکٹر محمد البہائی، محمود ایف حب اللہ جو اُس وقت واشنگٹن میں اسلامی مرکز کے ڈائریکٹر تھے، پیرس میں مقیم ڈاکٹر حمیداللہ، جنیوا کے اسلامی مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید رمضان اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں ۔ باقاعدہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی مجھے یہ احساس تھا کہ آج کی دنیا میں ایمان کی سلامتی کو نام نہاد تحریکِ تجدّد سے شدید خطرہ لاحق ہے جو قوانین وتعلیماتِ الٰہیہ میں انسان کے گھڑے ہوئے نظریات اور ’’اصلاحات‘‘ کی ملاوٹ کرنا چاہتی ہے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اگر تمام جدت پرست اس پر تُل گئے تو اصل دین کا نشان تک باقی نہیں رہے گاکیونکہ بچپن میں ، میں نے اپنے خاندان میں اپنی آنکھوں سے ’’آزاد خیالوں ‘‘ کے ہاتھوں منزّل من اللہ عقیدے کو مسخ ہوتے دیکھا تھا۔ میں چونکہ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی اور اسی ماحول میں پرورش پائی، لہٰذا میں نے یہ صاف دیکھ لیا کہ دہریت اور مادیت کے ماحول میں دین قبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔ ’’اصلاح یافتہ یہودیت‘‘[1]نہ صرف یہودیوں کو غیر یہودی تمدن میں جذب ہونے سے روکنے میں ناکام رہی بلکہ اس عمل کی رفتار میں مزید اضافے کا باعث بنی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ صرف نام کے یہودی بن کے رہ گئے اور کسی کا کوئی خاص مسلک نہیں تھا۔ بچپن میں مجھے مسلسل ’’اصلاح یافتہ یہودیت‘‘ کی فکری بددیانتی، منافقت اور سطحی سوچ کا مشاہدہ اور تجربہ حاصل ہوتا رہا۔ اس کم سنی میں بھی مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ ایسا کمزور اور بے روح فلسفۂ حیات اپنے پیروکاروں خصوصاً بچوں کی عقیدت کا مرکز نہیں بن سکتا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ یہی خطرہ مسلمانوں کے ہاں بھی موجود تھا۔ مجھے یہ جان کر صدمہ ہوا کہ بعض مسلمان
[1] ۔ یہودیت کی ایک شکل جس میں رسوم، اطوار اور رواج وغیرہ کو اس طرح سے جدید بنایا گیا ہے کہ وہ حالات کے عین مطابق ہوگئے ہیں یعنی قدیم رسوم و رواج کی پابندی کے بجائے یہودیت کے مذہبی کردار اور اخلاقیات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔