کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 332
کہ جو لوگ کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کو روز قیامت اللہ کے حضور پیش ہوکر اپنے دنیاوی اعمال کا جواب دینا ہے اور ان کے مطابق سزا یا جزا ملے گی، صرف وہی لوگ خود پر اتنا ضبط رکھتے ہیں کہ عارضی خوشیاں قربان کرسکیں ، مشکلات برداشت کرسکیں اور دائمی فلاح حاصل کرنے کے لیے قربانی دے سکیں ۔ پروفیسر کیٹش یہ لیکچر دے رہے تھے تو میں اپنے ذہن میں عہدنامۂ قدیم (تورات) اورتالمود کی تعلیمات کا قرآن وحدیث کی تعلیمات کے ساتھ موازنہ کررہی تھی اور مجھے یہودیت میں اتنے نقائص نظر آرہے تھے کہ بالآخر میں نے دل سے اسلام قبول کرلیا۔
اگرچہ میں 1954ء ہی میں مسلمان ہونا چاہتی تھی مگر میرے گھروالوں نے مختلف دلائل دے کر مجھے اس سے محروم رکھا۔ مجھے خبردار کیا گیا کہ اگر میں نے اسلام قبول کرلیا تو میر ی زندگی کئی الجھنوں سے دوچار ہوجائے گی کیونکہ یہودیت اور عیسائیت کی طرح اسلام امریکہ میں پذیرائی حاصل نہیں کرسکا۔ مجھ سے کہا گیا کہ اسلام مجھے میرے اہل خانہ اور معاشرے سے جدا کردے گا۔ اس وقت میرا ایمان اس قدر مضبو ط نہ تھا کہ اس بے پناہ دباؤ کو برداشت کرسکتا۔
اس اندرونی کشمکش کی وجہ سے میں اتنی بیمار پڑ گئی کہ کالج کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا اور میں سند (ڈپلوما) حاصل نہ کرسکی۔ اگلے دو سال تک میں گھر پر ہی رہی۔ پرائیویٹ طور پر علاج ہوتا رہا مگر حالت مسلسل بگڑتی چلی گئی۔ میرے والدین نے بے بسی کے عالم میں مجھے دو سال 1957تا59ء تک مختلف پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرائے رکھا جہاں میں نے یہ عہد کیا کہ اگر مجھے شفائے کاملہ نصیب ہوگئی تو میں اسلام قبول کرلوں گی۔
جب مجھے گھر واپس آنے کی اجازت مل گئی تو میں نے نیویارک شہر میں مسلمانوں سے ملنے کے امکانات کا جائزہ لیا اور خوش قسمتی سے مجھے بہترین خواتین وحضرات کی شناسائی نصیب ہوگئی۔ میں اسلامی جرائد میں مضامین بھی لکھنے لگی اور دنیا بھر کے مسلمان رہنماؤں سے خط کتابت کے ذریعے سے رابطہ بھی کرلیا۔ جن معروف شخصیات سے میری خط کتابت رہی ان میں