کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 331
اور اپنا حق سمجھتے تھے۔ عہد نامۂ قدیم (تورات) اور یہودی دعاؤں کی کتاب میں مذکور یہودیوں کے خدا کا کردار مسخ کرکے اسے پراپرٹی ڈیلر کی حیثیت دے دی گئی ہے (نعوذباللہ)۔ میرے خیال میں یہودیوں نے نسلی امتیاز پر مبنی قومیت کو مذہب میں ضم کرکے یہودیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ میں یہ سمجھتی تھی کہ انتہائی متعصب یہودیت کا سبب وہ سختیاں ہیں جن کا یہ قوم ہمیشہ نشانہ بنی رہی۔ میں نے سوچا اگر یہودی بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان مذاہب سے وابستہ لوگوں کو اپنے مذہب کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے تو ان مصائب سے بچ جاتے۔ تاہم جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ صہیونیت محض یہودیت کے نسلی اور قبائلی تعصبات اور لادینیت کا مجموعہ ہے۔ صہیونیت کی وقعت میری نظر میں اس وقت اور بھی کم ہوگئی جب مجھے معلوم ہوا کہ صہیونیت کے رہنماؤں میں سے شاذ و نادر ہی کوئی شخص اپنے مذہب کی پابندی کرتا ہو اور قدامت پرست و روایتی یہودیت کو اسرائیل میں جس قدر برا سمجھا جاتا ہے دنیا میں اس کی مثال شاید ہی کہیں اور مل سکے۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ امریکہ میں موجود یہودیت کے تمام اہم رہنما صہیونیت کے اندھے حامی ہیں جن کا ضمیر انھیں فلسطینی عربوں سے روا رکھی جانے والی خوفناک ناانصافی پر ذرا بھی ملامت نہیں کرتا تو میں نے خود کو یہودی سمجھنا ترک کردیا۔ نومبر 1954ء کی ایک صبح پروفیسر کیٹش (Katsh) نے اپنے لیکچر کے دوران میں یہ دلیل پیش کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توحید کی جو تعلیم دی اور سینا کے مقام پر انھیں جو قوانین الٰہیہ عطا کیے گئے ان کے بغیر تمام اعلیٰ اخلاقی اقدار کی استواری ناممکن ہے۔ ’’ایتھیکل کلچر‘‘ (Ethcal Culture) نامی دہریہ تنظیم اور دیگر الحادی فلسفوں کی تعلیم کے مطابق ضابطۂ اخلاق اگر خالصتاً انسان کی تخلیق ہو تو اسے انسان اپنی مرضی سے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ فرد اور معاشرہ دونوں کی ہلاکت، تباہی اور بربادی ہے۔ پروفیسر موصوف نے یہ دلیل پیش کی کہ تالمود میں ربّیوں (یہودی فقہاء) نے آخرت کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا ہے وہ محض خوش فہمی نہیں بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ انھوں نے کہا