کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 330
آغاز بلوغت کے تمام تر عرصے میں ، میں انسان دوست فلسفے سے متاثر رہی حتیٰ کہ ذہن اتنا پختہ ہوگیا کہ میں دہریت اور عقلیت سے بیزار ہونے لگی۔ تب میں نے ازسرِ نو حقیقت و اصلیت کی جستجو شروع کردی۔ کچھ عرصہ تک میں نیویارک کے ایک بہائی گروہ موسوم بہ ’کاروانِ مشرق و مغرب، (The Carvan of East and West) میں شامل رہی جس کی قیادت مرزا احمد سہراب نامی ایک ایرانی کرتا تھا، جو 1958ء میں فوت ہوا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ عبدالبہا کا سیکریٹری رہ چکا ہے جو بہائی مذہب کے بانیان میں سے ایک تھا۔ میں ابتدا میں بہائی مذہب کی طرف اس لیے راغب ہوئی کہ میرے خیال میں یہ اسلام کا ایک فرقہ تھا اور انسانی وحدت کی تعلیم دیتا تھا مگر جب معلوم ہوا کہ وہ اسلامی نظریے کو زیر عمل لانے میں کس قدر بری طرح ناکام رہے ہیں ، تو ایک ہی سال بعد اس سے مکمل طور پر برگشتہ ہوکر ان لوگوں سے الگ ہوگئی۔ جب میں 18سال کی تھی تو میں نے صہیونی نوجوانوں کی مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام مزارچی ہیتزئیر (Mizarchi Hatzair) تھا۔ مگر جب مجھے صہیونیت کی اصلیت کا پتہ چلا جس نے عربوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے کا مستقل دشمن بنادیا تھا، تو کچھ ماہ بعد اس تنظیم سے متنفر ہوکر میں نے اسے بھی چھوڑدیا۔ جب میری عمر 20 برس ہوئی اور میں نیویارک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی تومیرا ایک اختیاری مضمون ’’یہودیت اور اسلام‘‘ تھا۔ میرے پروفیسر ربی ابراہام آئزک کیٹش (Prof. Rabbi Abraham Isaac Katsh) وہاں شعبہ عبرانیات کے سربراہ تھے۔ انھوں نے تمام طلبہ کو اس بات کا قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اسلام یہودیت ہی کے بطن سے پیدا ہوا۔ ہماری نصابی کتاب بھی انھی کی لکھی ہوئی تھی جس میں مصنف نے بڑی محنت سے قرآن حکیم کی ایک ایک آیت کا منبع وماخذ یہودی تعلیمات قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ ان کا اصل مقصد تو اسلام پر یہودیت کی برتری ثابت کرنا تھا مگر مجھ پر ان کی تدریس کا اثر اس کے بالکل برعکس ہوا۔ مجھے خاص طور پر اس بات نے یہودیت سے متنفر کیا کہ واضح قرآنی تصوّر آخرت (یوم حساب ومابعد) کے باوجود یہودی فلسطین کی ملکیت کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ کا انعام