کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 327
باتیں جن پر میں ایک عرصہ سے غور کررہی تھی اور وہ خواہشات جو ایک عرصے سے میرے دل میں موجود تھیں ، قبول اسلام نے انھیں سند قبولیت عطا کردی۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد تمام سچے مسلمانوں کا مقصد حیات کامیابیوں کا حصول اور محض لطف اندوزی نہ تھا بلکہ اسلام میں مسرت اور اطمینان عاقبت میں نجات کے لیے اللہ کے احکام کی اطاعت سے حاصل شدہ جذباتی تسکین کا فطری نتیجہ ہیں ۔ اسلام میں فرائض کو حقوق پر ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے۔ مادہ پرست دنیا میں سیاسی یا معاشی قوت کو کامیابی کہا جاتا ہے، یا سائنس، فنون لطیفہ اور مختلف پیشوں میں ترقی اور حصول شہرت کو کامیابی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر باصلاحیت مالدار شخص جو کسی کاروبار یا تجارت سے بہت دولت جمع کرلے اسے کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام میں کامیابی کا معیار یہ ہے کہ دیرپا، کارآمد اور نفع بخش کام انجام دیا جائے، خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا ہو اور گناہوں سے اپنی خواہشات کی تکمیل میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی نظر میں تجربے کی گہرائی کی اہمیت تجربے کی وسعت سے زیادہ تھی۔ آج کی تیز رفتار اور مشینی انداز زندگی اور مسلسل نقل وحرکت کے باعث لوگوں کے تجربے میں وسعت تو ضرور ہوتی ہے مگر غور وفکر کے لیے وقت نہ ملنے کے باعث ان کی سوچ سطحی اور گہرائی سے محروم ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن وسنت پر مبنی شریعت یا اسلام کے سخت مذہبی، اخلاقی اور سماجی قوانین سے زندگی محدود اور پابند ہوجاتی ہے، ان سے میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہنا چاہوں گی کہ آج کے کئی خوش حال اور جدت پسند لوگ بدحال اور پریشان ہیں اگرچہ انھیں کچھ بھی کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ تاریخ میں ان جیسا بلند معیارِ زندگی کم ہی کسی کو حاصل رہاہے۔ انھیں بہترین لباس، بہترین تعلیم، بہترین غذا اور بہترین رہائش میسر ہے، مردوں اور عورتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، ان کی سیکولر تعلیم نے ان کے سماجی تعلقات پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ جو چاہیں انھیں کرنے کی اجازت ہے، انھیں اپنی ذات کو ہر طرح سے ترقی دینے کے وسیع مواقع میسر ہیں ، پھر بھی ان تمام تر مادی مفادات اور مواقع کے باوجود جدید دور کے بے شمار لوگ بے چین، غیرمطمئن اور