کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 326
کے مظالم کو تاریخ انسانی کا سیاہ باب کہنا چاہیے۔ بچپن میں جب مجھے نیویارک میں یہودیت کی تعلیم وتربیت دی جارہی تھی تو یہ فطری امر تھا کہ میں تاریخی لحاظ سے یہودیت کے سب سے زیادہ قریب مذہب (اسلام) کے متعلق جاننے کی خواہش رکھتی تھی۔ مجھے پتہ چلا کہ میں اسلام اور اس کی تہذیب کا مطالعہ کیے بغیر بھی عربوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتی ہوں اور جوں ہی مجھے یہ معلوم ہوا کہ عربوں نے اسلام کو عظمت نہیں بخشی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، تو میرے دل میں اس مذہب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ میرے خیال میں قرآن کی بائبل پر فضیلت اس کی آفاقی حیثیت کی وجہ سے ہے جس کے مقابلے میں یہودیت کی تعلیمات قوم ونسل پرستی کے تنگ نظر تصورات پر مبنی ہیں جن کے باعث یہودی اپنی قبائلی ذہنیّت سے باہر نہیں نکل سکے۔ چونکہ وسیع النظری اور عالمگیریت سے اعلیٰ اخلاقی اقدار جنم لیتی ہیں ،اس لیے اس نے ان مذاہب اور ان سے پروان چڑھنے والی تہذیبوں کے تاریخی ارتقا پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں ۔ ابدی اقدار کے متعلق میری تڑپ کی تسکین صرف اسلام ہی سے ہوئی۔ سچائی، نیکی اور خوبصورتی کی قدریں جن سے انسانی زندگی اور موت کو مقصد اور سمت میسر آتی ہے، مجھے اسلام ہی میں ملیں جبکہ دوسرے مذاہب میں سچائی کو مسخ، محدود اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ مجھے ان باتوں کا علم کیسے ہوا تو میں صرف یہی جواب دے سکتی ہوں کہ میرا ذاتی مشاہدۂ حیات مجھے قائل کر نے کے لیے کافی تھا، لہٰذا اسلام سے میری وابستگی ایک پر سکون اور محکم یقین کی بنا پر قائم ہے۔ بعض دوسرے نو مسلموں کی طرح مجھے کبھی خوابوں میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی نہ کبھی تصوف کے تجربات ہوئے اور نہ کوئی ڈرامائی صورت حال میرے قبولِ اسلام کا باعث بنی۔ اب میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں دل اور مزاج کے لحاظ سے ہمیشہ ہی مسلمان رہی ہوں اور اس وقت بھی مسلمان تھی جب مجھے یہ علم بھی نہ تھا کہ اسلام کیا ہے۔ میرا قبول اسلام تو ایک رسمی سی بات ہے اور اس سلسلے میں میرے دل میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔ بس یوں سمجھیے کہ وہ