کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 325
اقدار سے واسطہ رکھتے ہیں جبکہ خالص روحانی نقطۂ نظر سے کامل اور دائمی اقدار منزل مقصود ٹھہرتی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ آج کے پُرآشوب اور اخلاقی زوال کے اس دور میں ہمیں جتنے مسائل کا سامنا ہے اور جو خوفناک اخلاقی انحطاط، سماجی انتشار اور اپنے عزیزوں ، دوستوں اور اپنے خاندان کے رشتوں میں زوال درآیا ہے، اس کی بنیادی وجہ روحانی اقدار، معیارات اور نصب العین کے معاملے میں خلوص کا فقدان ہے۔ موجودہ فنون اور ثقافت کی خرابی بھی اسی وجہ سے ہے۔ آج کے انسان کو کسی حقیقی مقتدرِ اعلیٰ پر ایمان کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اچھے اور برے، درست اور غلط میں تمیز کرسکے، حسن وقبح کی پہچان کرسکے اور اہم اور غیر اہم میں فرق کر سکے۔ صرف اللہ تعالیٰ کا قانونِ کامل اور ضابطۂ اخلاق ہی تمام انسانوں کے لیے وقار، عزت وآبرو، تقویٰ اور اطاعت کا ضامن ہے۔ مادی اور لادینی قانون سے یہ بات ممکن نہیں کیونکہ لوگ کسی ایسے قانون کا احترام کیسے کرسکتے ہیں جسے کل ووٹوں کی مدد سے ناکارہ قرار دے دیا جائے۔ اسلامی ضابطۂ اخلاق اور قانون اللہ کے اختیار میں ہے، اس لیے لوگ ان قوانین کا احترام کرتے ہیں اور ان کی اطاعت بھی کرتے ہیں ۔ اسلامی احکام خوفِ الٰہی کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ یہ دنیا اور آخرت دونوں میں نافرمانوں کے لیے سخت سزاؤں کی وعید سناتے ہیں ۔ میں نے ’’تبدیلی‘‘ کو بذاتہ کبھی ایک خوبی نہیں سمجھا۔ میرے خیال میں کسی چیز میں دوام اور پائیداری کا نہ ہونا انسانی وجود کی قدر و قیمت کے انکار کے مترادف ہے اور اس کے بغیر زندگی محض بے وقعت، سطحی اور بے معنی ہے۔ میں ہمیشہ ابدی اور کامل سچائیوں کی تلاش میں رہی۔ یہودیت اور عیسائیت جیسے مذاہب مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ میں یہودیت اور اس کے علماء کی تنگ نظری اور قوم ونسل پرستی سے متنفر ہوگئی اور فلسطینی عربوں پر ان کے ہولناک مظالم نے میری آنکھیں کھول دیں ، حالانکہ فلسطینی عرب اپنے موقف میں حق بجانب ہیں اور باوقار لوگ ہیں حتی کہ متشدد یہودی بھی فلسطینیوں کی اخلاقی خوبیوں کے قائل اور معترف ہیں ۔ عیسائیت کے پیچیدہ اور سمجھ سے بالا تر فلسفۂ دین سے میں کبھی مطمئن نہ ہوسکی۔ عیسائی چرچ بہت سی اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی برائیوں کا محور ہے، جبکہ یورپ میں اس کے عہدِاقتدار