کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 316
روحانی زندگی کو شکست وریخت میں مبتلا کردے گی۔ اب اگر ارادہ اور حتمی فیصلے کا اختیار یقینی طور پر ایک ہی ہستی کے پاس ہے جو تمام اسباب کی مالک بھی ہے اور زمان ومکان اسی کی گرفت میں ہیں ، تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی رہنمائی کے لیے دنیا بھر میں دستور العمل بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ اگر کسی ایک زمانے میں اللہ تعالیٰ نے کسی ایک قوم کی اخلاقی اور روحانی رہنمائی ایک پیغمبر کے ذریعے سے کی تو باقی تمام قوموں اور تمام ادوار کے لیے بھی طریقہ کار وہی ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہی بات تھی جس نے مجھے عیسائیت کی بجائے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ اگر میں عیسائیت کے موجودہ نظریہ الوہیت پر ایمان لاؤں جیسا کہ عیسائیت پیش کرتی ہے تو اخلاقاً مجھے ان تمام اوتاروں پر ایمان لانا پڑے گا جو مختلف مشرک قوموں نے بنا رکھے ہیں ۔ بے شک قرآن عظیم کی اس بات سے مجھے روحانی تسکین ملی کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کے لیے اپنے حکم یا مرضی کا انکشاف بنی اسرائیل کے سلسلۂ انبیاء کے ذریعے سے کرتا رہا اور انسانیت کی ہدایت کا یہی ایک طریقہ ہے، اور الوہیت بہ شکل انسانیت کا نظریہ کا فرانہ سوچ کی پیداوار ہے جس کی در حقیقت کوئی بنیاد ہی نہیں ۔ قرآن حکیم یہ بات واضح طور پر بتاتا ہے کہ وہ تمام انسان جنھیں الوہیت کے اوتار سمجھ کر پوجا گیا، وہ الٰہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رُوح الامین (جبریل علیہ السلام) ان پر وحی لاتے تھے اور ان کے فوت ہو جانے کے بعد گمراہ لوگوں نے انھیں الٰہ سمجھنا اور پوجنا شروع کردیا۔ ٭ اسلام کا تصورِ رسول: میں واضح طور پر سمجھتی ہوں کہ انسانیت کی روحانی نجات میں رسالت کے مؤثر کردار کے حوالے سے کسی عیسائی کے لیے اسلام کا نظریہ قبول کرنا خاصا مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا تصور نبوت بائبل کے عہد نامہ قدیم میں مذکور قصے کہانیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر انبیاء علیہ السلام کے بارے میں ہم ان کہانیوں پر یقین کریں تو یہ کہانیاں ہمیں نجات کے بجائے جہنم میں لے جاسکتی ہیں تاآنکہ اپنی نجات کا کوئی اور مؤثر وسیلہ اختیار نہ کیا جائے۔ اسلام کا تصورِ نبوت جو میرے خیال میں یہودی عقائد کے اصلی تصور کے بھی مطابق ہے، عیسائیت کے تصور نبوت سے بہت مختلف ہے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنھیں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست صفاتِ کاملہ سے نوازا ہے، تمام مثبت اقدار اور نیکیوں کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں اور آپ کی صحبت ہی