کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 310
(حضرت مریم علیہ السلام) سے دعا مانگنا کبھی ترک نہیں کیا تھا۔ میں اس نظریے کو بائبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا کا نجات دہندہ قرار دینے کے نظریے سے متصادم سمجھتی تھی۔ ان تمام اشکالات کے باوجود مجھے کیتھولک چرچ سے کچھ تسکین حاصل تھی۔ اس میں خاصی چیزیں خوش کن تھیں ، لہٰذا میں اس سے کسی حدتک مطمئن ہی تھی۔ بعض پروٹسٹنٹ لوگوں سے ملاقات کے بعد تقریباً ایک سال تک کیتھولک مذہب پر میرا ایمان متزلزل رہا کیونکہ ان کا مذہبی جوش و خروش کیتھولک فرقے جیسا تھا۔ انھوں نے مجھے بائبل پر مبنی اور چرچ آف انگلینڈ جیسے ابہام سے پاک پروٹسٹنٹ مذہب سے متعارف کرایا جو کیتھولک مذہب کا نعم البدل تھا۔ پروٹسٹنٹ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نجات دہندہ مانتے تھے۔ اگرچہ ان کے عقائد کی سادگی مجھے اچھی لگتی تھی لیکن میں یہ نہیں مان سکتی تھی کہ صرف عقیدہ ہی انسان کو رب تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکتا ہے اور نہ یہ تسلیم کرنا ممکن تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کونجات دہندہ مان کر ایمان کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ اپنے آپ سے کافی بحث وتکرار کے بعد مجھے بالآخر آنکھیں بند کرکے کیتھولک تعلیمات و عقائد کی اطاعت قبول کرنی پڑی۔ اسلام کے بارے میں مجھے کوئی خاص علم نہ تھا۔ عرب میں غلاموں کی تجارت، کثرت ازواج، منشیات کی تجارت اور جانوروں پر تشدد کے حوالے سے بعض اخبارات میں مضامین پڑھ کر اسلام کے خلاف میرے تعصب میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ سکول کے زمانے میں پڑھی ہوئی صلیبی جنگوں کی داستانیں بھی کچھ نہ کچھ اب تک یاد تھیں جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ مسلمان غیر مہذب، وحشی اور متعصب ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مذہب سے متعلق ذہنی کشمکش نے مجھے مایوسی اور اعصابی شکستگی سے دوچار کردیا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ سچائی کی تلاش مجھے کہیں اس سے بھی بدتر حالت سے دوچار تو نہیں کردے گی۔ بہر صورت مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے نظر انداز نہیں کرسکتی، لہٰذا میں نے اللہ سے ہدایت کی دعا کی۔ درست فیصلہ کرنے کے لیے میں نے یہ فرض کرلیا کہ میں ایک دور افتادہ علاقے کی باشندہ ہوں جس نے