کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 31
میں نے اسلام کو تمھارے لیے بطور دین پسند کیا ہے۔‘‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قوم ، ملک اور دور کے لوگوں پر اسلام کی پیروی کرنا واجب ٹھہرا کیونکہ یہ دین جب تما م انسانیت کے لیے ہے اور اس کے پیغمبر کو پیغمبرِانسانیت قرار دے کراور تمام مخلوق کے لیے سراپا رحمت اور خاتم النّبیّین صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیا تو کسی دوسرے نبی کا دَور یا مذہب باقی نہ رہا۔ اگر کوئی آپ کی رسالت کو نہ مانے اور اﷲ کے اس دین کی پیروی نہ کرے جو آپ لے کر آئے ہیں تو یہ نہ صرف آپ سے بغاوت ہے بلکہ خالقِ کائنات سے بغاوت ہو گی جس نے آپ کو ہدایت اور سچا دین دے کر مبعوث کیا اور پوری دنیا کے لیے آخری نبی بنا کر بھیجا۔جیسا کہ ارشاد باری ہے: ((وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ)) (آل عمران85:3) ’’اورجو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے تواس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ اللہ عزوجل کا ارادہ یہ ہے کہ اسلام کو دوسرے تما م ادیان و مذاہب پر غالب کر دیا جائے۔ اور مستقبل کا دین اسلام ہی ہو گا کیونکہ یہ دین فطرت اور اﷲ کا دین ہے۔ اسلامی تاریخ کا تقریباً ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی تبلیغ شروع کی تو آپ کے پیروکاروں کی تعداد مٹھی بھر تھی،مگر آپ کی بے پناہ مساعی اور استقامت سے تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں تک جاپہنچی۔اس بات میں ذرا سا بھی شک و شبہ نہیں کہ جب 9؍ذوالحجہ 10ہجری کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے موقع پر خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا، وہاں ایک لاکھ چوالیس ہزار سے زیادہ اہلِ ایمان کا عظیم الشان اجتماع تھا۔تمام دوسرے ادیان و مذاہب پر فوقیت کے باعث اسلام ہی آج دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے محترم بھائی احمد دیدات فرماتے ہیں :