کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 303
کے بعد میں کئی سال تک اللہ سے ہدایت کی دعا مانگتی رہی تاآنکہ مجھے قرآن حکیم کا ایک مترجم نسخہ حسنِ اتفاق سے مل گیا۔ میں فوراً اس پر ایمان لے آئی، پھر مجھے ایک پاکستانی عالمِ دین مولانا صدیق اور ہندوستان کے ایک صاحبِ علم شیخ انصاری سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں نے ان سے فطرت اور اپنے دلی احساسات کے حوالے سے مفصل گفتگو کی، یہاں تک کہ یہ فاضل علماء پکار اٹھے: ’’الحمدللہ! آپ تومسلمان ہیں ۔ اب آپ ایک مسلمان خاتون ہیں ، آپ جو چاہیں پڑھ لیا کریں ۔ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھ لیا کریں ۔ جب کبھی آپ کچھ سیکھنا چاہیں ، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘ ٭ایمان سراسر مسرت:اس اظہار سے میں بہت خوش ہوئی۔ اس دن سے میرا دل ایمان کی حلاوت اور نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت سے چھلک رہا ہے۔ اگر چہ رسمی طور پر میرے قبول اسلام کا سال 1975ء ہے مگر میں گزشتہ 33 سال سے مسلمان ہوں ، یعنی اس دن سے جب میرے کانوں میں اللّٰہ اکبر کی صدا گونجی اور میں نے خانقاہ میں داخلہ لینے سے انکار کر دیا۔میرے دل نے پکار کر کہا: اللّٰہ اکبر’’اللہ سب سے بڑا ہے۔‘‘ میں پہلی سیاہ فام لڑکی تھی جو مسجد میں داخل ہوئی۔ اس سے کئی مسلمان لڑکیوں کو مسجدمیں ، خاص طور پر مسجد انجمن جامع سناتل (Sanatal) میں جاکر عبادت کرنے کا حوصلہ ملا، جس کی بنیاد عالم وفاضل ڈاکٹر شیخ انصاری نے ٹرینی ڈاڈ کے شہر فرانسس (Francis) میں رکھی تھی۔ اس انجمن کے موجودہ چیئرمین الحاج شفیق محمد ہیں ۔ اس سے پہلے وہاں کے لوگوں کاخیال تھا کہ اسلام ہندوستان کے مختلف مذاہب وعقائد میں سے ایک عقیدے کا نام ہے۔ ان کی نظرمیں قادیانیت اور احمدیت زیادہ اہم تھیں ۔[1] بعد میں جزائر ٹرینی ڈاڈ اور ٹوباگو کے بہت سے لوگوں نے جن میں سے اکثر افریقی نژاد تھے، اسلام قبول کرلیا حتی کہ مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 13 فیصد ہوگئی، جبکہ جمہوریہ ٹرینی ڈاڈاورٹوباگو میں 31 فیصد کیتھولک، 27 فیصد پروٹسٹنٹ، 6 فیصد ہندو اور 23 فیصد دیگر مذاہب کے لوگ ہیں ۔
[1] ۔ قادیانی یا احمدی، جو کچھ بھی وہ کہلائیں ، پاکستان کے آئین میں انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیاگیا ہے۔ (مرتب)