کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 296
٭عائشہ کِم کی اولاد: اس کے بعد محترمہ عائشہ نے اپنے بچوں کا ذکر چھیڑا۔ انھوں نے کہا: ’’میری صرف دو بیٹیاں ہیں ۔ مجھے ڈر تھا کہ ہمارے قبول اسلام پر وہ برہم ہوں گی، مگر پھر مجھے خیال آیا کہ آخر ہم میاں بیوی بھی تو ایک عرصہ تک اسلام سے بیگانہ رہے ہیں ۔ فطرت خود رہنمائی کرتی ہے۔ میری بڑی بیٹی کی عمر اس وقت 25 برس تھی۔ اس نے کہا: ’’میرا دل تو آپ کے ساتھ دھڑکتا ہے لیکن فی الحال میں اس وقت تک خاموش رہوں گی جب تک آپ اسلام کے بارے میں کچھ اور معلومات حاصل نہ کرلیں ۔‘‘کچھ عرصہ بعد اس نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ پھر اس کا نام یونگ (Yoong) سے جمیلہ رکھ دیا گیا۔ اس کی شادی کوریا کے ایک مسلمان سے ہوئی۔میری چھوٹی بیٹی نے 20 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اس کی شادی بھی کوریا کے ایک مسلمان سے ہوئی۔ اب وہ کوریا میں ہمارے قریب ہی رہتی ہے۔‘‘ ٭آزمائش کا دور: محترمہ عائشہ نے بتایا : ’’جس دن میرے شوہر مسجد سے مسلمان ہوکر لوٹے، ہماری زندگی کا ایک اذیت ناک دور شروع ہوگیا۔ میرے شوہر کے خاندان کے لوگ اسلام کے بارے میں بہت متعصب تھے اور انھوں نے شدید مخالفت کا اظہار کیا۔ انھوں نے ہم سے بالکل قطع تعلق کرلیا۔ میرے شوہر کو پاگل قراردے دیا اور دس سال تک انھیں تمام خاند انی مال اور جائداد سے محروم کیے رکھا۔ آزمائش کے ان کٹھن لمحات میں ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ ہم اسلام کی تعلیمات میں مگن رہے جس سے ہماری اسلام سے وابستگی مزید گہری ہوتی گئی۔‘‘ جہاں تک میرے میکے کا تعلق ہے، میں نے یہ سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ اللہ کرے کہ میں انھیں دائرہ اسلام میں لے آؤں ۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود میں اسلامی اصولوں کے مطابق یہ رشتے نبھارہی ہوں ۔ ٭قرآن مجید کی تعلیم:قر آن حکیم میں سے میں نے سب سے پہلے سورہ فاتحہ کا مطالعہ کیا۔ اس سورت نے مجھے اسلام کی عظمت کا احساس دلایا اور اس کے اصولوں کی انفرادیت واضح کی۔ کوریا میں جتنے بھی مذاہب اور عقائد کی تبلیغ کی جارہی ہے ان میں سے کوئی بھی اسلام کا ہم پلہ نہیں ہے۔