کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 294
لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا۔مگر میرے شوہر متذبذب تھے۔ انھیں اپنی روحانی تسکین کے لیے کچھ مزید معلومات درکار تھیں ۔ ہمارے پاس اتنا زیادہ وقت نہ تھا کیونکہ اس اثنا میں کوریا نے جاپان سے آزادی حاصل کرلی تھی۔ اس طرح 1945ء میں ہمیں واپس کوریا آنا پڑا۔ ٭حق کی تلاش فزوں تر ہوگئی: کوریا پہنچ کر صداقت جاننے کے لیے میری بے چینی بہت بڑھ گئی۔ میرے اندر سے یہ آواز اٹھنے لگی کہ سچ تک پہنچنے کا ایک اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ان تمام مذاہب سے بالکل مختلف ہے جن کے بارے میں اب تک میں معلومات حاصل کر چکی ہوں ۔ اسی دور میں کوریا کی جنگ چھڑ گئی جس نے پھر ہمیں نقل مکانی پر مجبور کردیا، مگر اس مرتبہ ہمارا سفر اندرون ملک تھا۔ ہم کوریا کے جنوبی حصے سے نکل کر مغرب کی جانب پوسان (Pusan) کے ساحلی قصبے میں آگئے۔ جوں ہی سفر ختم ہوا، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو صرف دین اور ایمان ہی بچاسکتا ہے۔‘‘ ٭اسلام کے سائے میں : محترمہ عائشہ نے قبول اسلام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا : ’’ہمارے ایک دوست عمر کم (Omar Kim) تھے جو اب فوت ہوچکے ہیں ۔ انھوں نے اعلانیہ اسلام قبول کرلیا تھا۔ ابھی جنگ جاری تھی جب انھوں نے ہمیں تاکیداً اسلام قبول کرنے اور اس کی تبلیغ اور فروغ کے لیے کام کرنے کی دعوت دی، یعنی ہم دوسرے لوگوں کو بھی یہ دین قبول کرنے پر آمادہ کریں ۔ ہمارے ذہن پر عمر کی باتوں کا بھی اثر ہوا۔ علاوہ ازیں جنگ کے باعث ملک معاشی اور اخلاقی انحطاط میں مبتلا تھا، جھوٹے عقائد اور توہمات اس انحطاط کی بنیاد تھے۔ اس زمانے میں یہ افسوسناک صورت حال ہمارے سامنے تھی۔‘‘ جب ان سے قبول اسلام سے قبل ان کے شوہر کی پریشانیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے مسکرا کر کہا: ’’جب اس سلسلے میں میرے شوہر نے مجھ سے مشورہ لیا تو میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو پہلے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسلام ہی واحد راہِ ہدایت ہے؟ مگر وہ کسی ان جانے خوف