کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 288
بھی اڑائیں تو پس پشت ان کا تمسخرضرور اڑاتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ لادین اور منکر لوگوں کے ساتھ الجھنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ ان کی’’آزاد خیالی‘‘ کا وہ احترام کرتے ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں سے انھیں چڑ ہے۔ اس کے باوجود مجھے کوئی قابل ذکر مشکلات پیش نہیں آئیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یونیورسٹی کے ’’ادارۂ مطالعۂ شرق و افریقہ‘‘ (Oriental and African Studies Institute) کی طالبہ تھی اور جن لوگو ں سے میرا واسطہ رہا وہ مذہب اور عقائد کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ بہرحال مجھے علم ہے کہ بہت سے نئے مسلمانوں کو کیاکیا تکلیفیں برداشت کرناپڑتی ہیں ۔ سوال۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کس حد تک علم حاصل کیا؟ جواب۔ اسلام کے بارے میں میرا علم ان کتابوں تک محدود رہا جومیری دسترس میں آئیں ۔ میں نے مسلمان علماء سے سوالات پوچھ کر بھی بہت کچھ سیکھا۔ میں نے مختلف علاقوں کے مسلمانوں سے بحث کرکے بھی بہت سی معلومات حاصل کیں ۔ پچھلے سال میں نے اسلامی فکر اور مغربی فلسفہ کے بارے میں سوڈان کے ایک طالب علم سے بہت کچھ سیکھا۔ یہ طالب علم ہر ہفتے ایک اجلاس منعقد کرتا تھا جس میں دس آدمی شرکت کرتے تھے۔ اس اجلاس میں ہمارا طریقہ کار یہ تھا کہ ہم قرآن حکیم کے اہم تراجم پڑھ کر ان کا قرآن مجید کے اصل عربی متن سے موازنہ کرتے تھے تاکہ ہر آیت کے قریب ترین مفہوم کا تعین کرسکیں ۔ پھر مختلف تفاسیر کی روشنی میں خاص طور پر تفسیر طبری کے حوالے سے ہم اپنے فہم کے مطابق اس آیت پر بحث کرتے تھے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے اس سوڈانی بھائی کے یہاں سے جانے کے بعد لندن میں کوئی ایسا آدمی موجود نہیں جس کے پاس اتنا علم یا ولولہ ہو کہ اسی استقامت سے یہ کام جاری رکھ سکے۔ سوال۔کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام جدید تہذیب کو متاثر کرسکتا ہے؟ مہربانی فرما کر بتائیں کہ یہ کس طرح جدید تہذیب پر اثر انداز ہوسکتاہے؟ جواب۔ آج کل مغربی دنیا لاعلمی کے اندھیرے میں سرگرداں ہے۔ امید کی ذرا سی بھی روشنی