کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 287
درمیان خلا پر ہو جاتا ہے اور دونوں میں توازن وتناسب قائم ہوجاتا ہے۔ اس طرح زندگی اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ متوازن اور ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں ۔ سوال۔ آپ کے قبولِ اسلام پر آپ کے خاندان اور دوستوں کا رد عمل کیا تھا؟ جواب۔ میرے والدین نے میرے قبولِ اسلام کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ یہ محض میرا ایک پسندیدہ موضوعِ گفتگو یا شوق ہے جیسے چینی زبان سیکھنے کاشوق تھا، لہٰذا وہ سمجھتے تھے کہ جلد ہی یہ شوق بھی سرد پڑ جائے گا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ قصہ بھول جائے گا۔ مگر جب وقت نے ان کاخیال غلط ثابت کردیا او رمیرا نیا دین میری سوچ تک محدود رہنے کی بجائے میری عادات اور طرز حیات کو بھی متاثر کرنے لگا تو انھوں نے اس تبدیلی پر افسوس کا اظہار کرناشروع کیا۔ شراب نوشی اور خنزیر کا گوشت کھانے سے میرے انکار پر وہ ناراض ہوئے اور وہ میرے ہر جگہ سکارف (دوپٹہ) اوڑھنے سے ناخوش ہوئے۔ دراصل مجھے یقین ہے کہ انھیں میرے قبول اسلام پر دوسرے لوگوں کے اعتراضات کی فکر تھی۔ایمان اور عقیدے کے بارے میں انھیں اتنی فکر نہ تھی، تاہم میری انگریز سہیلیوں کا رویہ اس سے مختلف تھا۔ وہ بحث و تمحیص کی اہلیت رکھتی تھیں اور عقلی دلائل سے ثابت شدہ بات قبول کرلیتی تھیں ۔ جب میں نے اسلامی انداز فکر اور سماجی زندگی کے اصولوں پر بحث کی تو انھوں نے اس کی معقولیت کو تسلیم کرلیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ کچھ سہیلیوں سے تعددِازواج اور اسلام کی جانب سے مقررہ حدود پر بحث ہوئی اور میں نے اس ضمن میں مغربی تہذیب کے اصولوں سے اسلامی اصولوں کا موازنہ کیا تو وہ تمام اس بات سے متفق ہوگئیں کہ اسلامی حدود کی پابندی کے ساتھ تعدد ازواج ہی ازدواجی زندگی کے مسائل کا بہترین حل ہے۔ سوال۔اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو کسی مشکل یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑا؟ جواب۔ جن لوگوں میں سوچنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابرہوتی ہے، وہ عام طور پر اسلام سے سخت عناد رکھتے ہیں ۔ وہ اکثر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اگر وہ ان کے سامنے مذاق نہ