کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 278
بچہ بھی اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ ربنا لک الحمد[1]
[آمنہ لی فلیمنگ]
(Amina Le Fleming)
میرا انتخاب: اسلام
1928ء میں ایک دن میرے بیٹے نے آبدیدہ ہوکر کہا: ’’میں مزید عیسائی نہیں رہنا چاہتا۔میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔اور امی! آپ بھی میرے ساتھ یہ نیا مذہب اپنالیں ۔‘‘
یہ وہ پہلا موقع تھا جب مجھے اسلام سے ناتا جوڑنا پڑا۔ کئی سال بعدمیرا رابطہ برلن (Berlin) کی مسجد کے امام صاحب سے ہوا جنھوں نے مجھے اسلام سے متعارف کروایا۔ میں نے یہ تسلیم کرلیا کہ اسلام ہی میرے لیے سچا مذہب ہے۔ میرے لیے 20 سال کی عمر میں بھی عیسائیت کے نظریۂ تثلیث پر ایمان لانا مشکل تھا۔ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے رومن کیتھولک رسم کے مطابق پادری کے سامنے اعتراف گناہ، ’’تقدس مآب‘‘ پوپ کے اقتدار اعلیٰ اور بپتسمہ جیسی رسوم کو بھی مسترد کر دیا اور اس طرح میں ایک مسلم خاتون بن گئی۔ میرے آباؤاجداد عیسائیت کے مخلص معتقد تھے۔ میری پرورش اور تربیت عیسائیوں کے دینی تعلیمات کے ایک ادارے میں ہوئی، لہٰذا مجھے زندگی کے بارے میں مذہبی انداز فکر گویا ورثے میں ملا۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ میں خود کو کسی نہ کسی دینی نظام سے وابستہ کردوں ۔ میں واقعی بہت خوش قسمت تھی کہ مجھے دین اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرکے حقیقی سکون مل گیا۔ آج میں ایک خوش بخت دادی اماں ہوں ، اس وجہ سے میں یہ دعویٰ کر سکتی ہوں کہ میرا پوتا بھی مسلمان پیدا ہوا۔ {وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ}’’اوراللہ جسے چاہتا سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔‘‘[2]
[مسز آمنہ موسلر، جرمنی ]
(Mrs. Amina Mosler, Germany)
[1] ۔اسلامک ریویو، اکتوبر1935ء ج:23، ش:10، ص:362,361
[2] ۔دی مسلم ورلڈ لیگ جرنل، مارچ 1974ء ص:48