کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 277
ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی خدا ہیں ۔ انھیں خد ا کہنا سراسر حماقت ہے۔ میرے خیال میں اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ، پوری کائنات پر محیط اور بہت محبت کرنے والا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے پیغمبر ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح لوگوں کو راہِ ہدایت دکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کی فلاح کے لیے انھی قوانین کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا اور مجھے یقین ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیاءعلیہم السلام دین اسلام ہی کی تعلیم دینے کے لیے آئے جس کے معنی ہیں ’’اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے سپرد کر دینا۔‘‘ آج اسلام کے ذریعے سے انسان حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کر سکتا ہے نہ کہ اس طریقے کے مطابق جس پر دورِ حاضر کے یہود و نصاریٰ کاربند ہیں ۔ اسی بنا پر ہم مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جب کہ وہ لوگ غلط فہمی کی بناپر گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
اب بحیثیت مسلمان میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ میں تمام انبیاء کو محترم سمجھ کر ان سب کے لیےعلیہم السلام کہہ سکتی ہوں کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح انھوں نے بھی حیّ وقیّوم ربِ کائنات کی رضا کے آگے جھک جانے کا درس دیا اور جارحیت کی بجائے رواداری اور امن کا پیغام دیا۔ ایمان باللہ پر استقامت سکھائی اور یہ یقین دلایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہماری بھلائی کس بات میں ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں بچوں پر شفقت کرنااور سچائی کے لیے دکھ جھیلنا سکھایا۔
دین سے غفلت اور اس کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے سے قوموں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں ۔ لوگ صرف اس بات پر دوسروں سے تعصب رکھنے لگے ہیں کہ وہ ان کے انبیاء علیہم لسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ لیکن اسلام میں رواداری جیسی امتیازی خوبیاں ہیں اور اس کی عالمگیر اخوتِ انسانی کوتسلیم کیا جاتا ہے۔ پس میں کہہ سکتی ہوں کہ میں نے اسلام اس لیے قبول کیا کہ یہ اللہ اور اس کے منصوبۂ ربوبیّت کے بارے میں میرے خیالات کے مطابق ہے۔ یہ واحد دین ہے جسے میں سمجھ سکتی ہوں ۔ دراصل یہ اتنا سادہ اور حسین ہے کہ ایک