کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 274
کرسکتا۔ علاوہ ازیں اپنے اردگرد لوگوں کو ذوق وشوق سے گناہ کرتے دیکھ کر بھی پتہ چلتا تھا کہ اس معصوم انسان کی قربانی کے باوجود دنیا گناہوں سے پاک تو نہیں ہوسکی۔ جب اس موضوع پر دوسرے لوگوں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی نصف تعداد جو عیسائی ہونے کے دعویدار ہیں ، دراصل ان تمام عقائد پر ایمان نہیں رکھتی جن پر عیسائیت میں ایمان لاناضروری ہے۔ وہ عقیدہ تبدیل کرنے یا اپنے بارے میں خود سوچنے کی تکلیف سے بچے رہنا چاہتے ہیں ، اس لیے انھیں عیسائیت ہی مناسب لگتی ہے۔اتوار کی سہ پہر کو مجھے عیسائیت کے بارے میں کچھ سوال وجواب سیکھنے پڑتے یا کوئی مذہبی نظم زبانی دہرانی پڑتی تھی۔ اس کی بجائے اگر مجھے اپنے خالق کے بارے میں کوئی نصیحت آموز باتیں بتادی جاتیں توکتنا اچھا ہوتا، مگر مجھے اس کی بجائے ایک ایسے مذہب کے عقائد طوطے کی طرح رٹوائے جاتے رہے جس پر میرا ایمان ہی نہ تھا۔ مجھے یہ اطمینان تھا کہ ابھی میری مسیحی توثیق کی رسم (Confirmation) [1]عمل میں نہیں آئی کیونکہ یہ عمل میرے لیے خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا۔ اس کے بعد توعیسائیت سے آسانی سے خلاصی تقریباً ناممکن ہوجاتی۔ مجھے ’’عیسیٰ (علیہ السلام)کے جسم اور خون‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار بالکل اچھی نہیں لگتی تھی اگر چہ کیتھولک مذہب کے برعکس پروٹسٹنٹ مذہب میں ’’جسم اور خون‘‘ کے الفاظ اصطلاحاً اور تمثیلاً استعمال ہوتے ہیں ۔ اس مذہبی رسم کے خیال سے میں بہت پریشان تھی مگر میں نے خفیہ طور پر یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میں اپنی مسیحی توثیق نہیں کراؤں گی کیونکہ مجھے ان رسومات سے نفرت تھی۔ اتوار کی شام مقدس گیتوں پر ختم ہوتی تھی اور اس اجتماعی گلوکاری میں شمولیت لازمی تھی۔ اس کی خلاف ورزی کو سخت نافرمانی سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ جو بچہ اس میں شامل نہ ہوسکے اسے شام ہوتے ہی فی الفور سوجانا چاہیے۔ اس طرح اتوار کا دن بہت طویل اور مشقت طلب بن جاتا تھا کیونکہ اس دن گفتگو، طرز عمل، مصروفیات، عبادات، غرض سب کچھ مخصوص انداز میں کرنا پڑتا تھا۔ ان تکلفات سے میں اتنی
[1] ۔ رومی، یونانی اور انگلستانی کلیساؤں کی ایک مذہبی رسم جس میں بشپ بپتسمہ دیتے ہوئے اشخاص کے سروں پر ہاتھ رکھ کر ان کے عیسائی ہونے کی توثیق کرتا ہے اور اس طرح انھیں عیسائی مراعات کا حقدار بناتا ہے۔