کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 270
سوال۔ والدہ کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا؟ جواب۔ حقیقت میں میری والدہ نے میرا بہت ساتھ دیا بلکہ جب میں انھیں اسلام کے بارے میں آگاہ کرتا تو وہ بہت غور سے میری بات سنتیں ۔ ان کا اسلام کے بارے میں اپنا بھی مطالعہ تھا، چنانچہ 1997ء میں انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ملائشیا گئیں کیونکہ میرے والد تو آسٹریلوی انگریز تھے مگر والدہ ڈچ یعنی ہالینڈ کی رہنے والی تھیں اور ہالینڈ کے باشندوں کا نو آبادیاتی دور سے انڈونیشیا اور ملائشیا سے قریبی تعلق ہے۔ میری والدہ اسلام قبول کرنے کے چند ماہ بعد ہی ملائشیا میں انتقال کر گئی تھیں ۔ ان کی آخری رسومات مکمل اسلامی طریقے سے ادا کی گئیں کیونکہ ان کا انتقال مسلم ملک میں ہوا تھا، اس لیے میں اسے ان کی خوش قسمتی ہی کہوں گا۔ سوال۔ آپ کے خاندان میں والدہ کے علاوہ اور کون مسلمان ہوا؟ جواب۔ میری والدہ کے مسلمان ہو جانے کے چند ماہ بعد میرا چھوٹا بھائی بھی اسلام لے آیا۔ اس کا نام اب ہاشم ہے۔ سوال۔ دائرہ اسلام میں آنے کے بعد آپ کی برطانیہ میں سماجی سرگرمیاں کیسی رہیں ؟ جواب۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے باقاعدگی سے اسلام کا مطالعہ شروع کیا کیونکہ اسلام کے بے شمار وسیع شعبے ہیں ۔ میرا یہ مطالعہ بائیس سال سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں برطانیہ میں مسلمان ہونے والے نئے افراد کی مدد کرتا تھا، انھیں لٹریچر مہیا کرتا اور دیگر معاملات میں ان کی مدد وغیرہ کرتا۔ میں نے برطانیہ میں موجود کئی اسلامی تنظیموں میں کام کیا۔ برطانیہ کی اسلامک پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے مشہور برطانوی مسلم ڈیوڈ موسیٰ پیڈکاک یا داؤد موسیٰ کے ساتھ مل کر اس پارٹی میں کام کیا۔ اس کے علاوہ میں نے برطانیہ کی یونیورسٹی میں اسلام کے اقتصادی نظام سے متعلق بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد عربی زبان سیکھنے مصر کی جامعہ الازہربھی گیا۔ یہاں سے قبرص کا سفر اختیار کیا اور وہاں کی درس گاہوں میں اسلام کے معاشی نظام سے متعلق علمی آگاہی حاصل کی۔ میں نے اسلامک فاؤنڈیشن