کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 264
مجھے وقت ملا تو معلوم ہوا کہ اب میں عیسائیت کی تعلیمات سے وابستگی برقرار نہیں رکھ سکتا، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے چرچ جانا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ فی الحال اس سے منسلک رہنا منافقت ہوگا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے اپنے مصری دوستوں سے بات چیت یاد آئی، لہٰذا معلومات میں مزید اضافے کے لیے میں نے خاصا وقت قرآن حکیم کے ایک انگریزی ترجمے کے مطالعے کے لیے وقف کردیا اور جب نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ارشادات میں نے بار بار پڑھے تو میں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ اسلام کی صورت میں بالآخر مجھے وہ سچا دین مل ہی گیا جس کی مجھے ایک عرصے سے تلاش تھی۔ اس احساس نے زندگی کے بارے میں میرا نقطۂ نظر یکسر بدل دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے مسلسل تاریک اور دھندلی راہوں میں بھٹکنے کے بعد بالآخر میں ایک کشادہ اور روشن شاہراہ پر آگیا ہوں ۔ تھوڑے ہی عرصے بعد میں نے ووکنگ (Woking) کی مسجد میں جاکر امام صاحب مولاناعبدالمجیدصاحب سے مشورہ کیا۔ میں ان کے قیمتی مشورے اور مدد کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ ان سے مشورہ کرنے کے بعد میں اسلام کی پاکیزہ برادری کا رکن بن گیا (الحمدللہ) یہ کہنا ضروری نہیں کہ قبول اسلام کے بعد مجھے ایک مقصد حیات مل گیا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ یہاں میں اسلام کے بنیادی اصولوں پر بحث نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ کام اہل علم کو زیب دیتا ہے تاہم ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اسلام اور عیسائیت دونوں پر عمل ہوتے دیکھا ہے اور مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ جہاں ایک عیسائی اتوار کے دن چرچ میں حاضری دے کر محض ایک سامع کی حیثیت سے پادری کا وعظ سننے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ اس کا اگلے اتوار تک کے لیے دینی فریضہ ادا ہوگیا، وہاں مسلمان روزانہ گھر میں یا مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے اللہ عزوجل کے حضور پیش ہوتے ہیں اور جمعہ میں بھی نماز باجماعت کے باوجود ہر نمازی کی انفرادی عبادت ہی شمار ہوتی ہے۔ اس طرح ہر مسلمان کسی درمیانی واسطے اور رسمی تکلّفات کے بغیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔