کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 258
جیسے عرب مفکرین کی تحریروں سے بہت استفادہ کیا ۔ علاوہ ازیں ہمارے اپنے شاہ چارلس (Charles) دوم نے (17 ویں صدی کے انگریزوں کی معیّت میں ) جو انقلابی پالیسیاں تجرباتی سائنس اور مذہبی رواداری کے حوالے سے وضع کیں وہ بھی یقینا اس نے عربوں سے لیں ، وہ اسی لیے سلطنت مغلیہ اور فرانسیسی بوربون (Bourbon) بادشاہت کا مداح تھا۔ اس کے دور سے یورپ ( یورپی نژاد امریکہ اور یورپی روس کو بھی میں اس میں شمار کرتا ہوں ) صنعتی انقلاب، سرمایہ دارانہ تہذیب کے کمالات اور فلسفیانہ الحاد کی مسلسل روایت کو فروغ دے کر دنیا کے پیچھے چلنے کے بجائے قائد بن گیا ہے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو روایات یورپ نے قائم کیں ان میں سے زیادہ تر قابلِ تقلید نہیں ۔ یورپی سلطنتیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور محکوم قوموں کے تمدن اور روایات سے سفیدفام (گورے) حاکم وحشیانہ سلوک کررہے ہیں ۔ یورپ کی پہلی سلطنت روم کی تھی جو تباہی سے دوچار ہوئی۔ بعد میں یورپی سلطنتوں نے احمق بن کر سلطنت روم کی نقالی کرنے کی کوشش کی۔ اگر سلطنت برطانیہ نے بھی سلطنت روم کی شکل اختیار کر لی تو یہ اس کی بدبختی کی علامت ہوگی۔ کچھ یورپی سلطنتوں نے پروٹسٹنٹ مذہب کی تبلیغ واشاعت کا کام بھی اپنے زیر نگیں ملکوں میں جاری کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے اتحاد کے بجائے انتشار پیدا ہوا۔ وسعت نظر کی جگہ تنگ نظری نے لے لی اور بیرون ملک نو آبادیاں قائم کرنے والے ملک اپنے اندرونی معاملات کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہ ڈھال سکے۔ 1936-40ءکے عرصے میں اتفاقاً چند مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی تو میں ان کے دین اسلام اور تمام نئے وپرانے، سماجی وعلمی اور سائنسی مسائل کو دین کی مدد سے نمٹانے کی صلاحیت پر ان کا اعتماد دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ 1942ء میں میں نے اسلام کا تھوڑا بہت مطالعہ شروع کردیا۔ میں نے دیکھا کہ میں نے جس دین کے بارے میں شک کیا تھا وہ دین واضح طور پر میری توقعات کے عین مطابق نکلا۔ گو اسلام وسیع الظرف اور کشادگی کا حامل ہے اور یہ ایک ایسی زبردست روایت کاحامل ہے جس میں دوسری روایات بھی باقی رہ سکتی ہیں اور ترقی بھی کرسکتی ہیں ۔ اس دین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف نبی تسلیم کیاہے بلکہ انھیں کلمۃاللہ اور روح اللہ بھی