کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 251
مجھے کان کنی کے اعتبار سے مشہور بروکن ہل (Broken Hill) کے صحرائی قصبے میں اپنے پرائمری سکول کے مطالعاتی دورے کے دوران میں ایک مسجد کو اندر سے دیکھنا بھی یاد ہے، اس وقت میری عمر 12 سال تھی۔ یہ بظاہر چھوٹی مگر خوب صورت مسجد تقریباً ایک صدی قبل افغان شُتر بانوں [1] نے بنائی تھی اور اس میں آکر مجھے ایسا سکون محسوس ہوا جو مجھے عیسائیوں کے کلیسا میں کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ہائی سکول میں تھا تو میرے دل میں قرآن حکیم پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یہ خواہش مجھے عجیب سی لگی کیونکہ میری پرورش عیسائیت پر ہوئی تھی مگر میں نے کبھی بائبل نہیں پڑھی تھی۔ میں کبھی بھی ایک مخلص عیسائی نہ بن سکا۔ پھر 12 ماہ بعد میں نے ایک خواب دیکھا اور یقین کیجیے کہ یہ خواب مجھے بالکل حقیقت لگا۔ میں نے دیکھا کہ مجھے ایک ناواقف سپاہی نے قتل کردیا ہے مگر قتل ہونے سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بھاری بوجھ میری پیٹھ سے اتر گیا ہے۔ میں ابھی تک زندہ تھا لیکن میں نے نیچے پڑی ہوئی اپنی لاش دیکھی۔ اس بات کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ مجھے جسمانی موت کے بعد زندگی کا یقین ہوگیا اور موت کا تمام خوف جاتا رہا۔ میرے خیال میں حقیقت کی جانب میرے سفر کا یہ ایک اور قدم تھا۔ اس خواب کے کچھ ہی عرصہ بعد میں نے دیکھا کہ ایک بہت شدید تاریکی چھا رہی ہے جو آسٹریلیا سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہے۔ حقیقتاً وہ تاریکی اتر چکی ہے اور اب وہ مزید گہری ہوگی۔ اس وقت یہ تاریکی طوفانی رات سے پہلے دھندلاہٹ کی طرح ہے۔ میں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا کہ اس تاریکی سے نجات کے لیے کچھ کرکے دکھاؤں گا۔ یہ گزشتہ سال اکتوبر 1983 ء کی بات ہے۔ اللہ عزّوجل کے فضل سے میں نے اس عہد کے دو دن بعد ایٹمی اسلحے کے خلاف ایک اجلاس میں شرکت کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بیان کردہ حقائق بائبل کی کتاب ’’مکاشفہ‘‘ سے لیے گئے تھے۔ اس سے قرآن کے مطالعے کا میرا شوق دوبارہ زندہ ہوگیا۔ مجھے یاد آیا کہ ’’دنیا کے خاتمے‘‘ کے حوالے سے مسلمانوں کے بھی کچھ
[1] ۔ انیسویں صدی کے وسط میں انگریز آسٹریلیا کے اندرونی دشوارگزار صحرائی علاقوں تک رسائی کے لیے بلوچستان سے اونٹ اور افغان شتر سوار وہاں لے گئے تھے۔ (م ف)