کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 248
عیسائیوں کے نام نہاد کلیسا کا جمود، جھوٹا وقار اور حاکمیت کارویہ تھا۔ اس حقیقت میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ دوسرے مذاہب کی نسبت عیسائیت میں باعمل علماء بہت کم ہیں ، جبکہ ان کے مقابلے میں ہزاروں عیسائی پادری ایسے ہیں جو تبلیغ دین کو محض پیشہ سمجھتے ہیں اور برادرانہ محبت، عاجزی اور دوسروں کا دکھ درد سمجھنے کے جذبے سے عاری ہیں جو کہ اعلیٰ کردار کی بنیاد ہیں ۔ اس بے پروائی اور غیر ہمدردانہ رویے نے لاکھوں لوگوں کو عیسائی مذہب سے بیزار کردیا ہے کیونکہ انھیں ان کی طلب کردہ روٹی کے بجائے کھانے کو گویا پتھر ملتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کیاشان ہے کہ اس میں شاہ و گدا اللہ کے حضور شانہ بشانہ پیش ہوکر عبادت کرتے ہیں جہاں رنگ ونسل کاکوئی امتیاز نہیں ۔ جن لوگوں کو حج بیت اللہ کا موقع ملا ہے یا جنھوں نے اس کے بارے میں پڑھا ہے وہ بلاشبہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ کم ازکم حج تو عالمگیر اخوت کاعملی مظاہرہ ہے۔ ہر نسل کے سفید فام، سیاہ فام اور زرد فام لوگ ایک ہی رشتے میں منسلک نظر آتے ہیں اور یہ اسلام کا رشتہ ہے۔ اسلام کی وحدت کسی شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ گورے، کالے، بڑے، چھوٹے اور امیر، غریب تعصبات سے ماورا ہوکر اس دین میں محبت وشفقت اور ایمان افروز روحانی اخوت کی فضا میں سانس لیتے ہیں ۔ ویسے بھی تمام انسانوں کوذی شرف اور یکساں پیداکیا گیا ہے، لہٰذا میں یہ بات نہیں مانتا کہ کچھ انسانوں کو تو منتخب اور اعلیٰ بنا کر پیدا کیا گیا جبکہ باقی لوگوں کو پانی نکالنے اور لکڑیاں چیرنے کی مزدوری کے لیے بنایا گیا۔ امیر یا غریب، چھوٹا یا بڑا اور سیاہ یا سفید ہونا تو محض ایک اتفاق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں ۔ مگر انسان کی بتدریج ترقی اور ارتقا کے باوجود یہ اخلاقی کمزوری اور روحانی بے اعتنائی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ دوسرے کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ مگر اب جبکہ میں نے تعصب اور تضادات پر مبنی اور غلط تعبیرات سے بھرپور روایات کے آہنی بندھنوں سے آزادی حاصل کرلی ہے اور اسلام کی معزز برادری کا رکن بن گیا ہوں ، مجھے اپنے اس فرض کا احساس ہوا ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی شان لوگوں کے