کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 246
وعظ ونصیحت کی تربیت حاصل کی اور اکثر مجھے بائبل پر لیکچر دینے پڑتے تھے۔ مگر جب میری سکول کی تعلیم کا دور اختتام کے قریب پہنچا تو میں عیسائیوں کے عقائد واعمال سے سراسر متنفر اور اپنے مذہب سے بالکل منکر ہوگیا۔ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقرر کردہ معیار بلاشبہ اعلیٰ تھے اور مجھے اچھے بھی لگتے تھے، تاہم جس بات نے مجھے سب سے زیاد ہ پریشان کیا وہ رنگ دار لوگوں سے سفید فام عیسائیوں کا ذلت آمیز سلوک تھا۔ اسے دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صرف سفید فام لوگوں کے لیے مصلوب ہونا گوارا فرمالیا تھا یاواقعی تمام انسان ایک ہی اللہ کی مساوی مخلوق ہیں ؟ اسی شک، مایوسی اور پریشانی کے عالم میں ، میں نے سکول چھوڑ کر لارڈ کیلوِن (Lord Kelvin) کے ایک بحری جہاز پر ملازمت کرلی اور دنیا کی سیر وسیاحت میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح مجھے ان مختلف قوموں کے لوگوں اور ان کے عقائد سے دلچسپی ہوگئی جن سے دوران سفرمیں میرا واسطہ پڑا۔ مجھے ہر قسم اور ہر قبیل کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ سب سے زیادہ میں بیونس ایئرز (Buenos Aires) میں سویڈن کے ایک باشندے سے متاثر ہوا جو تقر یباً 26 برس کا ایک حسین نوجوان تھا۔ ایک دن ہمارے جہاز کے عملے کے کچھ لوگ جن میں مجھ سمیت تین ویسٹ انڈیز کے باشندے، ایک روسی، ایک فن لینڈ کا باشندہ، لیورپول (Liverpool) سے ایک آئرلینڈ کا باشندہ اور ایک ویلز (Wales) کا باسی شامل تھے۔ ہم گودی پر سیر کے لیے نکلے تو ایک دلکش آواز نے ہمیں مخاطب کیا: ’’کیا حال ہے لڑکوں کا؟‘‘ معلوم ہوا کہ یہ خوش مزاج سویڈن کا باشندہ بندرگاہ میں لنگر انداز ایک جہاز کا چیف آفیسر تھا۔ ہم اس کی شخصیت اور اس کے دلکش اندازِ گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہم رک گئے اور تعارف کے بعد اس سے باتوں میں مشغول ہوگئے۔ اس نے ہمیں اپنے جہاز پر آنے کی دعوت دی اور جب ہم جہاز پر اس کے کمرے کے قریب پہنچے تو اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا: ’’آجاؤ میرے بھائیو!‘‘ اس برادرانہ استقبال پر ہم سب حیران ہوگئے۔ عمر میں سب سے چھوٹا ہونے کے باعث میں نے انتظار کیا کہ میرے ساتھی بات شروع کریں ۔ وہ سب لوگ شاید شرمیلے پن یا قدامت