کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 238
میرے قبول اسلام کی کہانی مختصر اً یوں ہے کہ 1926ء سے میں اس موضوع پر غور کرتا رہا ہوں کہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ وہ کون سی کشش تھی جو مجھے اسلام تک لے آئی؟ سچی بات ہے کہ میرے ان سوالات کا دو ٹوک جواب مجھے نہیں مل سکا۔ کسی خاص فلسفے یااسلام کی تعلیمات میں موجود کسی خاص عقیدے نے مجھے ادھر متوجہ نہیں کیا۔ میں اس پورے نظام سے متاثر ہوا جو اخلاقی اور عملی تعلیمات کا ایک عظیم الشان، مکمل اور منضبط مجموعہ ہے جس کی پوری تشریح کوئی مفکر نہیں کرسکتا۔ میرے لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ اسلام کے فلاں پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اسلام ایک ماہر فن کی کاریگری کا مکمّل اور بہترین نمونہ ہے۔ اس شاندار فنی شاہکار کا ہر ہر پہلو ایک ہم آہنگ اور مربوط تصور کا نتیجہ ہے جس سے اس کی تعمیر کے حسن اور داخلی وحدت کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی ساخت میں کوئی کمی بیشی نظر نہیں آتی بلکہ اس سے مکمل توازن اور ہم آہنگی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔ غالباً مجھے اسلام کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اس کی تعلیمات اور نظریات آپس میں مکمل طور پر منظم اور منضبط ہیں ۔ اس کے علاوہ شاید کچھ اور باتیں بھی ہوں جن کا میں تجزیہ نہیں کرسکتا۔ میں نے اسلام کی خوبیوں سے مسحور ہوکر اسلام قبول کیا۔ مسحور ہونا یامحبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کئی عوامل پر مشتمل ہے، اس میں ہماری خواہشات اور احساس تنہائی کا بھی دخل ہے اورہمارے بلند نصب العین، احساس کمتری، کمزوریوں اور توانائیوں کا بھی دخل ہے۔ یہ ہے میرے قبول اسلام کی داستان۔ اسلام ایک واضح احساس بن کر میرے دل میں اتر گیا۔ چُپکے سے رات کے اندھیرے اور لاعلمی میں آکر واپس نہیں چلا گیا بلکہ ہمیشہ کے لیے میرے دل میں بس گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے بڑی عرق ریزی سے اسے سیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی تعلیمات سے ممکن حد تک آگاہی حاصل کی اور قرآن وحدیث کامطالعہ کیا۔ قرآن کی زبان، اس کی تاریخ اور اس پر لکھی جانے والی توضیحی اور تنقیدی کتب کا مطالعہ کیا۔ میں نے پانچ سال حجاز اور نجد میں رہ کر اسلام کے عروج اور اس کی تعلیمات کے منبع وماخذ سے جذبہ اور ولولہ حاصل کیا