کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 236
ایک عام غیر ملکی سیاح کا سا تھا۔ میں نے ان ممالک میں اپنے سامنے ایک سماجی نظام اور ایک Weltanschauung (ایک منظم اور اصولی تصور کائنات) دیکھا جو مغربی نظام سے اصلاً مختلف تھا۔ پہلی نظر میں مجھے یہ پرسکون انسانی تصور زندگی اچھا لگا جو کہ یورپی معاشرے کے مشینی اور شور شرابے والے نظام کے بالکل برعکس تھا۔ اس رجحان اور ہمدردی کے جذبے نے آہستہ آہستہ مجھے اسلامی اور یورپی معاشروں کے موجودہ اختلافات کے بارے میں تحقیق پر آمادہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات میں میری دلچسپی بڑھنے لگی۔ اس وقت میری تحقیق وتفتیش کی خواہش اتنی بھرپور نہیں تھی کہ یہ مجھے اسلام کی جنت کی راہ دکھاسکتی۔ تاہم اس خواہش نے مجھے ایک نیا میدان عمل دیا کہ میں اس میں ایک ایسے انسانی معاشرے کا مشاہدہ کروں جو ترقی کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ یہ معاشرہ کسی بھی شکل کے اندرونی خلفشار سے پاک ہے اور اس کی بنیاد اخوتِ انسانی کے وسیع ترین تصور پر استوار کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال میں اس اعلیٰ نصب العین کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی جو اسلامی تعلیمات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تمام ترفعالیت، تحریکی قوت اور ترقی، جو اسلام کا جزولازم ہے، اس کے بجائے ان میں غفلت اور جمود دیکھنے میں آتا ہے۔ اسلام میں رحم وکرم، مستعدی، قربانی اور لگن کے جو خصائص پائے جاتے ہیں عصرِحاضر کے مسلمانوں میں کم ہوتے ہوتے تنگ دامانی، دریا دلی اور عاجزی میں ڈھل چکے ہیں ۔ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور موجودہ حالت زار کا تفاوت دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی۔ اس کے نتیجے میں ، میں اس معاملے کو ایک ایسے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے لگا جس میں زیادہ غوروخوض اور اسلام سے تقرب شامل تھا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ میں نے خود کو اسلام سے الگ کرکے نہیں بلکہ خود کو اس میں شامل سمجھ کر اسلام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اگرچہ یہ کوشش ایک فکری تجربہ تھی، تاہم میں اس کی مدد سے اس مسئلے کادرست حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کا مجھے سامنا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کی تمدنی اور سماجی تباہی کی