کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 230
سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تمدن کے اختلافات بہرصورت پائے جاتے ہیں اور لو گوں کے مختلف تہذیبوں کے بارے میں نقطۂ نظر کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اچھی نصیحت سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ لوگوں کو صرف عقلی دلائل ہی سے قائل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ لطیف انسانی جذبات کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ صرف لوگوں کے عقائد کی خامیاں نہ بتائی جائیں بلکہ ان عقائد کا پرچار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے نقصانات بھی بتائے جائیں ۔ داعی کا کام لوگوں کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرنا بھی ہے اور انھیں موجودہ مسائل کا مناسب حل بتانابھی ہے۔ اس کے علاوہ داعی کو غیر ضروری دلائل سے گریز بھی لازم ہے۔ گفتگو شائستہ اور باوقار ہو اور مزاج میں نرمی اور شائستگی پائی جائے۔ سوالات کے جوابات کھرے کھرے اور باوقار ہونے چاہییں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے ایک اور اچھا طریقۂ کار مقامی زبانوں اور لب ولہجہ پر عبور حاصل کرناہے۔ اس طرح داعی جن لوگوں سے مخاطب ہوں گے وہ ان کی بات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے اور دعوت زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔ علاوہ ازیں ہر داعی کے لیے دین کا مکمل علم ہونا ضروری ہے۔ یہ بات جانناضروری ہے کہ انسان ایسی چیز کی تبلیغ نہیں کرسکتا جس کا اسے علم ہی نہ ہو۔ دعوت کی کامیابی کے دوسرے پہلو خلوص نیت اور استقامت ہیں ۔ داعیوں کو اچھی مثالیں قائم کرنی چاہییں کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ ’’لفظوں کی نسبت عمل کی آواز زیادہ مؤثرہوتی ہے۔‘‘ ان باتوں کے علاوہ انسان کو دعوت کے کام پر زیادہ محنت کرنی چاہیے اور ایک فرض شناس مسلمان ہونا چاہیے۔ ہمیں جدید ذہن کے عیسا ئی مبلغین سے سبق سیکھ کر ان کی تبلیغی کوششوں کی روک تھام کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیرِ مساجد کی طرف دھیان دینا چاہیے۔ ہمیں نوجوان نسل پر بھی پوری توجہ دینی چاہیے۔ ان کے لیے ہر سطح پر اسلامی تعلیم کے ادارے بنائے جائیں ۔ شفاخانے، ہسپتال، یتیم خانے، امدادی ادارے وغیرہ قائم کرکے سماجی خدمات بھی سرانجام دینی چاہییں تاکہ معاشرے میں اسلامی ماحول قائم ہو اور اسلام کے