کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 23
ماہرین آثارِ قدیمہ اور سائنسدانوں کو 1898ء میں دریائے نیل کے ساحل کے قریب ڈوبی ہوئی ایک پرانی کشتی میں فرعون منفتاح (Meneptah) کی باقیات ملیں ۔ ڈاکٹر مورس بوکائے کا کہنا ہے کہ اس ممِیْ (حنوط شدہ لاش) کے طبی معاینے سے ثابت ہوا کہ یہ لاش زیادہ دیر تک پانی میں نہیں رہی کیونکہ اس پر پانی کے ناگوار اثرات یعنی گلنے سڑنے کے نشانات موجود نہیں ہیں جو پانی میں زیادہ دیر ڈوبے رہنے کی وجہ سے ہوتے ہیں ، پھر بھی حیرت کی بات ہے کہ 3000 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ جسم ابھی تک صحیح سالم ہے۔ قرآنِ حکیم کے معتبر ہونے کا یہ ایک ٹھوس ثبوت ہے کیونکہ قرآنِ حکیم اس لاش کی دریافت سے تقریباً 1300 سال پہلے نازل ہوا جبکہ اس میں باری تعالیٰ کے وہ الفاظ آئے ہیں جو فرعون کی غرقابی کے وقت اس سے کہے گئے تھے: ((فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ)) (یونس:10/92) ’’آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے نشانِ عبرت بنے۔‘‘ انسان کوتمام صلاحیتیں صرف بقا کے لیے نہیں عطا کی گئیں بلکہ اُسے عقل بھی دی گئی کہ وہ اپنے وجود کا مقصد اور مفہوم سمجھ سکے۔ عقل کے استعمال کی یہ صلاحیت اُ سے حقیقت کا ادراک کرنے میں مدد دیتی ہے اور اگرحقیقت اچانک اسے مل جائے تو اُ س کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ نہ صرف حقیقت کو تسلیم کرے بلکہ اس کا اعلان کرے۔ اُ س کو منوانے کی کوشش کرے اور اُ س کی حفاظت بھی کرے خواہ وہ کوئی تلخ حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اﷲ نے عقل سے بہترین انسان کو کوئی خوبی نہیں دی۔‘‘[1]
[1] ۔ صاحب دیباچہ کو سہو ہوا ہے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے بلکہ اس سے ملتا جلتا ایک قول مطرف بن شخیر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’ماأوتی أحد من الناس أفضل من العقل، ’’لوگوں میں سے کسی کو بھی عقل سے افضل چیز عطا نہیں کی گئی۔‘‘(مصنف ابن أبي شیبۃ: 188/7 رقم الحدیث : 35129) یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اسی قول کا مفہوم بیان کیا ہے، نیز عقل کے متعلق تمام احادیث ضعیف اورمن گھڑت ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔