کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 227
کا وہی مستحق ہے۔اسمائے حسنیٰ میں پائی جانے والی صفاتِ عالیہ کا وہی اکیلا مالک ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو ان صفات کا دعوے دار نہیں ہوناچاہیے۔ اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا یا الٰہ سمجھنا توحید کے منافی ہے۔ اسلام نے مجھے واقعی سچائی کی روشنی دی ہے، درست عقیدہ عطا کیا ہے اور خالق کی طرف لے جانے والا صحیح راستہ دکھایا ہے۔ تقریباً 9 ماہ تک اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد مجھے کسی مضائقہ کے بغیر اسلام کی مکمل صداقت کا یقین ہوگیا اور میں نے 3 جون 1985ء کو اسلام قبول کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اسلام قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ آپ جانتے ہیں کہ انسان باشعور مخلوق ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ نہ صرف حق کو تسلیم کرے بلکہ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر حال میں حق کا اعلان کرے اور اس کا دفاع کرے۔ حق کو نظر انداز کرنا ڈھٹائی، خواہشاتِ نفس کی پیروی، شرمنا ک فعل اور گناہ کبیرہ ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ اپنے خالق سے بغاوت اور غداری ہے جس نے ہمیں وجود بخشا۔ اگر وہ ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹادینے کاارادہ کرتا تو کسی بھی لمحے ہمیں ملیامیٹ کرسکتا تھا مگر اس نے ہم میں سے ہر ایک کو ایک مخصوص مقصد کے لیے پیدا کیا (لہٰذا وہ اس مقصد کے حصول سے پہلے انسانیت کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔) اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہمارے مقصدِ تخلیق کی نشان دہی کردی ہے: ((وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ)) ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘ [1] تخلیق کائنات کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ)) ’’اور دنیاوی زندگی محض کھیل تماشا ہے۔‘‘ [2] اللہ تعالیٰ کے مدنظر ایک سنجیدہ مقصد ہے جسے ہم اپنی ناقص عقل کے مطابق یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہر مخلوق کو افزائش اور ترقی کے ذریعے سے اپنے مقصد اولیٰ (خالق) تک پہنچنے کا موقع
[1] ۔ الذاریات 56:51 [2] ۔ الأنعام 32:6