کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 22
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تووہ یقینا اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘
قرآن مجید کے استناد کے اتنے ثبوت موجود ہیں کہ اس دیباچے میں اُن کا بیان کرنا ممکن نہیں ۔ صرف یہی ایک حقیقت کیا کم ثبوت ہے کہ مطالعہ قرآن کے دوران میں ہمیں علم سائنس کے ایسے اعدادو شمار اور حوالے ملتے ہیں جنھیں دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ واقعی اﷲ ہی کا کلام ہے۔ بلاشبہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک کسی کتاب میں اتنی گہری فکری بنیادوں پر مبنی اتنے عوامل و مظاہرِ فطرت کا ذکر نہیں ملتا جنھیں انسان کے سائنسی علم نے صدیوں بعد جا کر دریافت کیاہو۔ ابتدائی صدیوں میں (قرآنِ حکیم کے نزول تک) لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے تھے، کیونکہ ان کے پاس تحقیق اور جائزے کے وسائل نہ تھے۔ جب سائنس کے مطالعے نے دریافت کے در کھولے، تب لوگوں نے ان حقائق کو سمجھا اور ان کی تصدیق کی۔ ان عوامل و مظاہر فطرت میں سے چند ایک کا ذکر قرآنِ حکیم کی درج ذیل آیات میں ملتا ہے: [21/33-39/5-55/33-22/53-26/66-23/14] مگرپڑھنے والوں کو جو بات سب سے زیادہ حیران کرتی ہے وہ سورہ یونس کی آیات 90'91 اور 92 ہیں جن پر فرانسیسی ڈاکٹر مورس بوکائے (Dr.Maurice Bucaille)نے فرانس کی اکیڈمی آف میڈیسن (اکادمی طب) میں 9 نومبر1976ء کو اپنے خطاب میں بحث کی۔ان آیات میں بنی اسرائیل پر ظلم کرنے والے حکمران فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل مصر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں نکلے اور جب فرعون نے ان کے فرار کے بارے میں سنا تووہ انھیں پکڑنے کے لیے فوج لے کر گیا، مگر اﷲ نے اسرائیلیوں کے لیے بحیرۂ احمر میں راستہ کھول کر اس کی کوشش کو ناکام کر دیا۔جب فرعون اور اس کی فوجوں کی سمندر پار کرنے کی باری آئی تو سمندر نے انھیں اپنی لہروں میں لے کر غرق کر دیا۔
فرعون کے ساتھ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا ذکر پہلے انبیاء علیہم السلام کے کسی صحیفے میں نہیں ملتا لیکن قرآنِ کریم نے ہمیں اس کے متعلق کچھ تفصیل بتائی ہے کہ کیا کچھ ہوا۔