کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 218
ہوئے لباس میں سے جسم کے مختلف حصوں پر نیل کے نشانات، خراشیں اور زخم صاف نظر آتے تھے اور اپنے مسیحی آقاؤں کی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خوف ان کی نیم مردہ روحوں میں کسی گھناؤنے درندے کی طرح چھپا ہوتا تھا۔ گزشتہ زمانے پر نظر ڈال کر ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عیسائیت نے انسان کی ذہنی ترقی کی طرف پیش رفت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ پہلے عیسائی رومن بادشاہ[1] نے دستور غلامی کے بارے میں ان تمام اصلاحات کو ختم کردیا جو سلطنت روم میں عظیم مفکر سینیکا (Seneca) کی تعلیمات کے باعث رائج ہوئی تھیں ، پھر چوتھی صدی عیسوی سے 1860ء تک عیسائی سلطنتوں کے اندر جو ظالمانہ دستور غلامی رائج رہا، اس کی داستان لرزہ خیز ہے۔ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار اُن کی تعلیمات پرعمل کررہے ہیں اسے دیکھ کر تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ عزّوجل کے (نعوذ باللہ) سب سے بڑے دشمن ہونے کا تصور اُبھرتا ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ سراسر خیر اور انسانوں کے لیے رحیم وکریم ہے اور عیسائیت کے ہاتھوں انسانیت کو جو نقصان پہنچ چکا ہے وہ بھی ہم بخوبی جانتے ہیں اور آیندہ بھی اس سے کسی نفع کا امکان نظر نہیں آتا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ تمام عیسائی برے ہیں بلکہ اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر اچھے ہیں اور ان کے دل میں بنی نوعِ انسان سے بھلائی کا جذبہ موجود ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ عیسائیت کا فلسفہ اور اصول نہایت مبہم اور اتنے لچکدار اور کمزور ہیں کہ یہ کسی دیرپا خیر اور
[1] ۔ قسطنطین اعظم پہلا رومی حکمران (305-37ء) تھا جس نے عیسائیت کی سرپرستی کی اگرچہ خود اس نے عیسائیت بسترِ مرگ پر قبول کی۔ اس کے بعد یورپ بتدریج عیسائیت کے چنگل میں گرفتار ہوتا چلا گیا، حتی کہ دسویں صدی عیسوی میں عیسائیت انگلستان اور روس کا بھی سرکاری مذہب بن گئی۔ اے کاش! ساتویں آٹھویں اور نویں عیسوی صدیوں میں مسلمانوں نے باہمی خانہ جنگیاں ترک کرکے روس اور انگلستان کو اسلام کی آغوش میں لے لیا ہوتا تو اُمّت مسلمہ کو شاید وہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے جو قرون وسطیٰ کی اور موجودہ صلیبی جنگوں کے دوران میں دیکھنے پڑے اور دیکھنے پڑرہے ہیں ۔ (م ف)