کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 210
میری پرورش اور تربیت پر وٹسٹنٹ عقائد کے مطابق ہوئی اور کم سنی ہی میں مجھے عیسائیت کی تعلیمات ناقص نظر آنے لگیں ۔ میں نے بچپن میں بائبل کے حوالے سے کئی مقابلوں میں انعامات حا صل کیے لیکن اپنے مذہب کے بارے میں میرا علم جتنا بڑھتا گیا میں اتنا ہی اس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو تا گیا۔چودہ برس کی عمر میں مجھے اپنے مذہب کی مستقل رکنیت کی رسوم سے واسطہ پڑا۔ مجھے توقع تھی کہ یہ مذہبی تقریب میرے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دے گی اور روح اللہ کی مدد سے میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاؤں گا۔
(مجھے بتایا گیا تھا کہ جب بشپ میرے سر پر ہاتھ رکھے گا تو خدا کی روح اُ س کی انگلیوں کے ذریعے سے میرے وجود میں داخل ہو جائے گی)۔ تاہم اس تقریب سے اپنے مذہب پر میرے ایمان میں اضافہ ہونے کی بجائے میرے ہرآن بڑھتے ہوئے اس یقین کو تقویت ملی کہ میرا مذہب تو محض حماقت آمیز توہّمات اور مضحکہ خیز رسوم کا مجموعہ ہے۔
جب میں سکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر یونیورسٹی پہنچا تو میرایہ شک یقین میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جو مذہبِ عیسائیت میں نے اپنا رکھا ہے وہ میرے کسی کام کا نہیں ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو میں ایک برگزیدہ انسان اور شہید تو مانتا تھا مگر انھیں الٰہ کا مرتبہ دینا مجھے سراسر نامعقول اور اُن کی اپنی تعلیمات کے بر عکس لگا۔ جس مذہب کو میں رد کر چکا تھااُ س کی خامیاں تلاش کرنے میں تو مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی مگر اس کی جگہ کوئی اور معقول مذہب تلاش کرنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ عیسائیت تو محض تضادات اور توہمات کا مجموعہ تھی۔عقل پرستی بھی بطورِعقیدہ ناکافی تھی اور یوں لگا کہ کوئی ایسا معقول دین ہے ہی نہیں جو ان تمام مذاہب کی خوبیوں کا مجموعہ ہو جن کے بارے میں میں نے پڑھا یاسنا تھا۔ میں اپنے تمام طے شدہ نظریات پر مشتمل کسی مسلّمہ دین کی تلا ش سے تقریباً مایوس ہو گیا اور خاصے عرصہ تک اپنے مبہم سے عقائدہی پر قناعت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دن اتفاقاً مجھے خواجہ کمال الدین کی کتاب ’’Islam and Civilisation‘‘ مل گئی۔