کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 207
ہے۔ اس کے بعد وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں ہمیں اس وقت نظر نہ آنے والی چیزیں نظر آنے لگیں گی اور روح پاک صاف شکل اختیار کر نے کے آخری مرحلے سے گزرے گی۔ ٭اخوتِ انسانی پر میرا یقین : میں یقین رکھتا تھا کہ ہم سب اﷲ کی مخلوق ہیں اور اس کی نظر میں ہم سب برابر ہیں ۔رنگ ، نسل، عقیدے یا مرتبے کے اعتبار سے اﷲ نے ہمارے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا۔ زمین پر اﷲ کی تدبیر کے مطابق ہم نے ایک مقرر ہ عرصے تک رہنا ہے اور اگر ہمیں یقین ہو کہ ہمارا خالق ہم سب سے محبت کرتا ہے تو ہمیں بھی ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے، یعنی اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اُس نے ہمیں اپنی فطرت پر پیدا کیاہے۔ ٭ انبیاء علیہ السلام پر ایمان : میرا یہ ایمان تھا کہ مختلف ادوار میں اﷲ نے اپنے منشا کے مطابق بعض بندوں پر اپنی وحی نازل کی ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے انھیں منتخب اور مامور کیا ہے۔ یہ محض ایک اجمالی خاکہ ہے مگر یہ میرے عقائد کے بنیادی خدو خال ضرور واضح کرتا ہے۔ آپ پریہ بات یقینا واضح ہو گئی ہو گی کہ مجھے ایک ایسا دین درکار تھا جو معقول، قابل عمل اور ہر قسم کے شخصی تسلط سے آزاد ہو ۔ محض رسمی اور بلا دلیل دعووں یا پیشوائی قانون پر مبنی نہ ہو کہ اُسے اپنانے میں اپنے ضمیر سے نا انصافی کرنی پڑے۔ یہ دین مجھے اسلام کی صورت میں مل گیا۔ دیارِ مشرق کی سیاحت کے دوران میں اسلام کی سادگی اور اس کے پیروکاروں کے خلوص سے متاثر ہوا ۔ میری پرورش عیسائیت کے مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ میرے والد نظم و ضبط کی سخت پابندی کرواتے تھے۔ بعض اوقات تو مذہبی معاملات میں اُن کی سخت گیری کٹرعیسائی فرقے کے جبر کی صورت اختیار کر لیتی تھی۔مجھے عیسائیت کے سوا تمام دوسرے مذاہب کو کفر اور اُن کے پیرو کاروں کو کافر سمجھنا سکھا یا گیا تھا، پھر ذرا غور کیجیے کہ جب میں بڑا ہو کر اپنی نظر سے دیکھنے کے قابل ہوا اور اُنھی لوگوں سے واسطہ پڑا جن کا کافر اور بت پرست ہونا مجھے سکھایا گیا تھا،[1] تو میں نے کیا محسوس کیا ہو گا؟ اِن تمام دوسرے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد میں
[1] ۔ مغرب کے مسیحی پیشواؤں اور پادریوں کا تعصّب دیکھیے کہ انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں مشہور کر رکھا تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بت کو پوجتے ہیں ۔ (م ف)